حکیم طارق محمود صاحب ۔۔السلام علیکم!
اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی ‘صحت مند اور خوشیوں بھری عمر عطا فرمائے ( آمین) جس طرح آپ لوگوں کی مشکلات کا حل بغیر کسی لالچ کے کر رہے ہیں‘ باعث حیرانی ہے۔ ماہنامہ عبقری اس کی زندہ مثال ہے اور یہ امر خاصا حیران کن ہے کہ جس نفسانفسی کے دور میں لوگ گلیمرس سے بھرپور رسائل نکال رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسے کمائے جاسکیں وہاں خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور لوگوں کی خدمت کیلئے ایسا ماہنامہ کا اجراءواقعی حیران کن ہے۔ اتنا مکمل میگزین میری نظر سے نہیں گزرا کہ چند روپوں میں تمام پریشانیوں و بیماریوں کا حل ہمارے گھر کی دہلیز پر ۔ دعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ ”عبقری“ کو مزید کامرانیاں عطا فرمائے۔ (سیدہ عابدہ)
اخلاقی زوال قرآن و سنت سے دوری
لوگ کہتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا کو ایک دوسرے سے بہت قریب کر دیا کہ اب ہم دنیا کے کسی بھی حصے میںکوئی واقعہ یا سانحہ رونما ہو جائے تو ہم اس سے اس سانحے اور اس پر تبصروں سے ایک پل میں آگاہ ہو جاتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ حال ہے کہ دیوار کے دوسری طرف موجود اپنے ہی جیسے انسان کے احوال سے بے خبر رہتے ہیں۔موٹر کار کا یہ اثر ہوا کہ جن کے پاس موٹر ہے وہ موٹر سے محروم عزیز اور ہمسایوں سے میل جول رکھنا پسند نہیں کرتے چنانچہ ہر شہری آبادی دو طبقوں میں بٹ گئی ہے۔ مضافاتی علاقوں میں رہائش رکھنے والے انسان اور شہری آبادیوں میں رہنے والوں کے درمیان منافرت کا اتنابڑا خلیج واقع ہوتا ہے کہ شہری علاقے کے رہنے والا طبقہ مضافاتی علاقوں کے رہنے والوںسے تپاک سے نہیں ملتا اور ان کے ملنے کا انداز تکبرانہ ہوتا ہے۔ٹیلیفون کے رواج سے بھی اچھی گفتگو کا ستیا ناس ہو کر رہ گیا ہے۔ گفتگو روانی سے بے ربط جملوں کے ساتھ اخلاص سے خالی جاری رہتی ہے اور پھر کئی مرتبہ درمیان میں ہیلو ہیلو کا نعرہ بھی لگتا ہے۔ ای میل کی ایجاد سے اچھی ہینڈرائٹنگ میں اپنے دوست احباب کو محبت نامے لکھنے کی رسم ختم ہوئی ادب کی ایک بیش قیمت سند کا خاتمہ ہو گیا۔سہولتوں کی فراہمی نے ہمیں ایک دوسرے کیلئے مانوس اجنبی بنا دیا ہے وہ جن کے پاس موجود ہے وہ اس سے بہتر کیلئے اپنی اقدار بھلا رہے ہیں جن کے پاس نہیں ہے اس کا احساس محرومی انہیں اپنائیت کے احساس سے محروم کر رہا ہے۔ گھر اور خاندان کی خوشیاں اپنی نہیں رہیں۔ اپنی خوشیوں میں دوسروں کوشریک کرنے کا تصور بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ صاحب نے گھر کا صوفہ اور قالین بدلا تو بڑے شاہانہ انداز سے اپنے ملازم کو بخش دیا حالانکہ کے ان کے اپنے کسی کم حیثیت رشتہ دار کیلئے ایک اچھا تحفہ بھی بن سکتا تھا۔ ملازم نے تو کباڑیے کو بیچ کر رقم اپنی جیب میں ڈال لی ہے لیکن دوسرے بھائی کے بچے کرسی اور پلنگ اور چٹائی سے محروم ہوں تو ان کو تحفہ میں دے دیتاتو اچھے اخلاق اور حقوق العباد کا فریضہ ادا ہو جاتا اور بھائی کے بچے خوش ہو جاتے اور اللہ کی رضا بھی حاصل ہوتی۔ بخشش ہمیشہ گھر سے شروع ہوتی ہے مگر ہم نے ترتیب بدل ڈالی ہے۔اب آنے جانے کا رواج بالکل ختم ہو کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے ذہنی اور نفسیاتی مریض بڑھتے جارہے ہیں۔جب سے معاشرے میں نفسا نفسی آئی ہے تب سے ہم نے اپنی اعلیٰ اسلامی روایات کو بھلا دیا ہے اور خواہشات کے اسیر ہو گئے ہیں اور اسی لئے ہمارے اندر بے سکونی اور بے اطمینانی ہے۔ (قاری محمد نصیر عثمانی‘ کراچی)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں