سسرال میں ماں نہ ملی ساس ملی
بیٹی ساری زندگی ماں کے سائے تلے پلتی‘ پنپتی رہی‘ دھن تو تھا پرایا‘ آخر شادی ہوکر سسرال چلی گئی۔ وہاں اسے ماں نہ ملی ساس ملی اور ساس نے جینا حرام کردیا۔ فلاں جگہ تو نے یہ کام کیوں کیا تھا؟ فلاں ہاتھ کیوں ہلائے تھے ‘ ہنستی ہوئی تیری ناک ٹیڑھی ہوئی تھی اور تیرے فلاں انگلی بہت ٹیڑھی ہے‘ چلتے ہوئے تیرا بدن کیوں ہلتا ہے‘ فلاں وقت میں بیٹھی تھی تو نے مجھے سلام نہیں کیا تھا۔ میں جارہی تھی تو نے میری طرف پیٹھ کی تھی۔ تجھے اس وقت ڈکار آیا تھا دراصل تومجھ پر تھوکنا چاہتی تھی۔ دن رات بہو یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں سنتے سنتے آخر اکتا گئی۔ پھر ایک انوکھا کام اور ہواکہ ساس رات کو گیس کے تمام والو کھول دیتی تھی تاکہ صبح ناشتہ کیلئے اٹھے‘اگر دیا سلائی جلائے تو آگ لگ جائے یا پھر سیڑھیوں کو تیل لگا دیتی تھی تاکہ بہو پھسلے اور کسی طرح کمر ٹوٹ جائے‘ ہڈیاں ٹوٹ جائیں۔
نہ ساس بدلی ‘ نہ شوہر بدلا
یہ کیا اس سے بھی اگلا سلسلہ کاروبار اور نوکری سے جب شوہر آیا تو ماں نے اپنے پاس اپنے کمرے میں بٹھا لیا ‘وہ تو پہلا ہی تھکا آیا تھا ماں نے وہیں کھانا کھلایا‘ بیوی انتظار کرتی رہی بیوی وہاں آبھی جائے تو ماں چیختی ہے کہ تھوڑا وقت بھی مجھے دینے کیلئے برداشت نہیں کرتی‘ رات گئے تک شوہر وہاں بیٹھا‘ یہ بیٹھی انتظار کرتی رہی کہ سارا دن بھی انتظار‘ اب بھی انتظار‘واپس آیا آتے ہی شوہر کروٹ بدل کر سو گیا۔ صبح سویرا اٹھا اور پھر اپنے کام‘ کاروبار یا نوکری پر چلاگیا۔ آئے دن گئے دن‘ ترتیب یہی رہی‘ نہ ساس بدلی نہ شوہر بدلا‘ اگر شوہر نے بدلنے کی کوشش کی تو ساس نے شور مچانا شروع کردیا کہ بیوی کےنیچے لگ گیا ہے۔
بیٹی اپنا فن دکھا!نوکرانی سے رانی بن جا!
بیٹی نے آخر تھک ہار کر ماں کو ساری فریاد سنائی‘ ماں نے بیٹی سے کہا کہ بیٹی تجھے میں نے ساری زندگی جو فن دکھایا اور سکھایا تھا‘ وہی فن اب اپنے سسرال میں دکھا اور وہی فن تیری دکھی زندگی کی نجات ہے‘ تیری ترقی ہے ۔یہی فن تجھے نوکرانی سےرانی بنائے گا۔ وہ فن جو صرف دو پروں پر ہے۔ ایک پَر: برداشت۔ دوسرا پَر: خدمت ۔ پھر جو پرواز ہوتی ہے اس کے آگے شاہین کی پرواز کیا ہوگی؟ شاہین کی طاقت کیا ہوگی؟ شاہین کر ہی کیا سکتا ہے۔
بیوی کی حیثیت باسی سالن‘ اُگلا ہوا پان اور کچلا ہوا جوتا
بے شمار گھرانے دیکھے‘ بیوی کی گھر میں حیثیت ایک ناپسندیدہ لقمہ‘ باسی سالن‘ اُگلا ہوا پان اور کچلا ہوا جوتاتھی بلکہ اس سے کہیں بدتر لیکن برداشت خدمت اور مسلسل خدمت ۔گھر‘ باورچی خانہ ‘ صفائی‘ ستھرائی میں ایسا فن دکھانا شروع کیا کہ آہستہ آہستہ گھر سےنوکرانیاں ختم ہونے لگیں کیونکہ جو صفائی ستھرائی سلیقہ بہو میں تھا وہ خادمین میں کہاں ہوتا؟ پہلے تو خدمت پر بھی اعتراض لیکن اس نے اعتراض کا جواب بھی بھرپور خدمت سے دیا۔
بہو کا فن! برداشت اور خدمت
پھر اعتراض بدلتے بدلتے کبھی کبھی اعتراف اور ہلکی پھلکی تعریف پر آگیا لیکن تعریف کرنے کے بعد پچھتانا کب تک؟ پھر ایک وقت آیا کہ بہو نے اپنا فن دکھایا جو اسے اس کی ماں نے دکھایا تھا اور بتایا بھی تھا اور نصیحتوں میں یہ خاص نصیحت بھی کی تھی۔وہی فن کام آیا اور بہو گھر کی رانی بن گئی‘ ساس اب ہر فیصلہ بہو سے کرواتی ہے لیکن بہو نے اپنا فن نہیں چھوڑا جس کا پہلا حصہ برداشت اور دوسرا حصہ خدمت۔ خدمت بھی ایسی کہ کرتے جائیں بھولتے جائیں‘ کرتے جائیں بھولتے جائیں‘ اس پر جو فیصلے عرشی ہوتے ہیں وہ تمام فرشی فیصلوں کو بچھاڑ دیتے ہیں اور زندگی میں کامیابیاں‘ رمق‘ رونق اور عزت دلاتے ہیں۔ قارئین! میرا تو یہی مشورہ ہے کہ ہم سب بیٹیوں کو یہی سکھائیں ‘اسی میں ہی کامیابی ہے۔
آئیں! آج کے بعد کوشش کریں کہ بیٹیوں کو ڈگریوں سے زیادہ گھرداری‘ سہنا‘ برداشت کرنا‘ پی جانا اور خدمت ‘ یہی بیٹی کی عزت یہی بیٹی کی سرداری اور اسی سے بیٹی رانی بنے گی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں