گزشتہ قسط میں میں نے آپ کو شیخ عنایت علی کے واقعات سنائے‘ جو انہوں نے میرے خاندان کے بارے میں بتائے۔موصوف بہت بڑے قانون دان اور بہت ہی زیادہ شریف النفس انسان تھے‘ مجھ سے بہت محبت کرتے‘ حالانکہ عمر میں بہت بڑے تھے اور علم بھی ان کو کمال ملا تھااور بہت زیادہ ملا تھا‘ اپنے فن کے صاحب کمال تھے اور ایسا کمال تھا کہ بڑے بڑے قانون کی دنیا کے لوگ انہیں تلاش کرتے تھے اور ان سےمشورہ لینے کے لیے گھنٹوں بلکہ دنوں انتظار کرتے تھے ۔میرے پاس تشریف لاتے‘ بہت دیر بیٹھتے‘ میرے علاج اور ادویات کو پسند کرتے اور پھر میرے بڑوں کے واقعات سناتےکیونکہ ان کا بڑوں سے تعلق تھا اور بہت زیادہ تھا۔ ایک مرتبہ کہنے لگے کہ ہیڈپنجند میں بہت بڑا سیلاب آیا اور دائیں بائیں سارے گاؤں ڈوب گئے۔ لوگوں کے پاس جومال جانور بچا تھا وہ ساتھ لیے اردگرد کے جتنے بھی شہر تھے ان کا رخ کیا لیکن سب سے زیادہ احمد پور شرقیہ کا رخ کیا۔
پڑوسی بھی یہ بات سن کردنگ رہ گئے
کہنے لگے کہ آپ کے داداحاجی اللہ بخش رحمۃ اللہ علیہ کو جب پتہ چلا کہ لوگ شہروں میں آرہے ہیں تو ان کے پاس ایک بہت بڑی جگہ تھی فوراً اس جگہ پر تنبو‘ قناعتیں لگادیں‘ سائبان لگادئیے اور پھر جھونپڑے بنانے والے مخصوص لوگ تھے ‘ان کو بلایا اور بہت زیادہ جھونپڑے بنانے لگے۔کچھ دنوں تک تو وہ سائبان کے نیچے رہے اور پھر ہر خاندان کو الگ جھونپڑا دیا اور ان کے جانوروں کے لیے پانی ‘برتن اور ان کے کھانے کے لیے غذا کا انتظام‘ ان کے جانوروں کیلئے گھاس کا انتظام اور ان کی ایک ایک چیز کا انتظام کیا۔ وہ لوگ حیران تھے یہ کون شخص ہے؟ جس نے ہمیں اتنا نوازا ہے اور اتنا عطا کیا ہے۔کیونکہ وہ خود سامنے نہیں آتے تھے‘ ان کے ملازمین بس جاتے تھے اور خدام جاتے تھے اور لوگوں کی ضرورتیں پوری کرکے آجاتے تھے ۔شیخ صاحب بتانے لگے کہ ایک مرتبہ ان متاثرین کے جتنے بھی بڑے تھے مرد اور خواتین انہیں پتہ چل گیا کہ یہ سب کچھ حاجی صاحبؒ کے گھر سے آتا ہے وہ علی الصبح دروازہ کے باہر آئے اور دعائیں دینے لگے۔ ان کی دعاؤں فریادوں کا اتنا شور تھا کہ بہت سے لوگ اکٹھے ہوگئے کہ نامعلوم کیا ہوگیا ہے؟ انہوں پوچھا کیا بات ہے؟ تو ان متاثرین نے انہیں بتایا کہ ہم سیلاب متاثرین ہیں اور حاجی صاحبؒ نے ہمارے ساتھ بھر پور تعاون کیا‘ تب جاکر پڑوسیوں کو پتہ چلا کہ یہ واقعہ ہوا‘ اتنی خاموشی سے کام کیا خود پڑوسیوں کو بھی پتہ نہیں تھا اور پڑوسیوں کو بھی خبر نہیں تھی۔ شیخ صاحب بتانے لگے کہ حاجی صاحبؒ بہت سخی تھی‘ آخری درجہ کے سخی تھے‘ جہاں ولایت کے تاجدار تھے وہاں سخاوت کے بھی تاجدار تھے‘ غریب پروری کرتے بہت چھپاتے پتہ چل بھی جاتا تو خاموش ہوجاتے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں