یہ واقعہ ان دنوں کا ہے جب میں نے میٹرک کے امتحان دیئے تھے اور اپنی نانی کے ہاں شاہلا کوٹ گیا ہوا تھا۔ مجھے پرانے کھنڈرات اور عمارتیں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ میں نے اپنے کزن کاشف سے کہا کہ یہاں کوئی پرانے مکانات یا کھنڈرات ہیں اس نے کہا ہاں ہم تمہیں کل ہی پرانے قبرستان لے چلتے ہیں۔ میں نے بھی سن رکھا تھا کہ یہ قبرستان بہت خطرناک ہے مگر مجھے اس پر یقین نہ تھا۔ قبرستان گاﺅں سے تقریباً 15 یا 20 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ ہمیں ایک موٹرسائیکل بھی درکار تھی۔ جو میرے کزن کاشف کی تھی۔ ہمیںتقریباً ایک گھنٹہ ہی لگا ہوگا کہ ہم وہاں پہنچ گئے۔ سامنے قبرستان تھا اور اس کے گیٹ پر تاریخ لکھی ہوئی تھی جو تقریباً صدیوں پرانا تھا۔ وہاں پر اب کوئی شخص کسی کو بھی دفنانے نہیں جاتا تھا۔ جب ہم اندر گئے تو وہاں دیکھ کر حیران ہوگئے کہ قبریں پھٹی ہیں اور اندر مردے صاف نظر آرہے ہیں۔ ہڈیوں کے پنجرے دیکھ کر ہمارے ہوش کھوگئے۔ اب شام کے ساڑھے چھ بج رہے تھے ہم نے گھر میں اطلاع کی تھی کہ ہم اپنے دوست کی سالگرہ پر جارہے ہیںاس وجہ سے ہمیں اجازت مل گئی تھی ‘ قبرستان میں پرانے درختوں کی وجہ سے کافی سناٹا تھا۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا۔
میں نے اپنی ٹارچ روشن کی اور ادھر ادھر دیکھنے لگا لیکن ہمیں کچھ نظر نہ آیا میں نے جب اپنی ٹارچ سے مندر کی اوٹ میں دیکھا تو ہمیں وہاں سے دھواں نکلتا دکھائی دیا۔ ہم دونوں نے ہمت کی اور وہاں چلے گئے جب ہم وہاں پر پہنچے تو ایک بوسیدہ قبر سے دھواں نکل رہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک بھیانک چڑیل کی شکل میں تبدیل ہوگیا۔ اس چڑیل کے منہ سے دو فٹ کے قریب دو دانت باہر لٹک رہے تھے اس کی آنکھیں سرخ شعلے اگل رہی تھیں ہم نے وہاں سے دوڑ لگائی اور کافی دور بھاگ آئے اور اپنی سانس کو بحال کرنے لگے‘ وہ چڑیل ہمارے قریب آکر کاشف کو اٹھانے لگی مگرکاشف کے گلے میں ایک اللہ کا نام جو لاکٹ پر کنندہ تھا اسکو دیکھ کر وہ چڑیل دور جاگری‘ پھر سنبھل کر میری طرف آئی کاشف نے وہی لاکٹ میرے گلے میں ڈال دیا۔ اس سے پہلے کے لاکٹ میرے گلے میں پہنچتا کاشف کا گلہ خالی ہوگیا اور چڑیل نے کاشف کو پکڑا اور غائب ہوگئی‘ اگلے دن میں نے اپنے پیر بابا سے اس بات کا ذکر کیا تو بابا نے کہا مجھے سب معلوم ہے‘ تمہیں ایک کام کرنا ہوگا‘ بابا نے کہا میں تمہیں ایک وظیفہ بتاتا ہوں جو تمہیں اسی جگہ پر کرنا ہوگا جہاں سے چڑیل کاشف کو اٹھاکر لے گئی تھی۔ پیر بابا نے وظیفہ بتایا‘ میں قبرستان کے وسط میں گیا اور اپنے گرد دائرہ لگاکر بیٹھ گیا اور اپنا تین دن کا وظیفہ شروع کردیا۔ مجھے پہلے اور دوسرے دن تو کچھ نہ ہوا مگر تیسرے دن جب میں وظیفہ کے درمیان پہنچا تومجھے عجیب و غریب ہولناک مناظر دکھائی دینے لگے ‘ مجھے پیر بابا کی آواز آئی کہ بیٹھے رہو یہ مناظر خود بخود ختم ہو جائیں گے‘ میں اپنا وظیفہ پڑھنے لگا۔ کچھ دیر بعد وہی چڑیل آئی اور کہنے لگی مجھے معاف کردو‘ میں تم کو کچھ نہیں کہوں گی‘ کاشف کو بھی واپس کردوں گی‘ میں نے اپنا وظیفہ روک دیا۔ پھر مجھے پیر صاحب کی آواز آئی یہ تمہیں بھی مار دے گی‘ یہ تمہیں کاشف نہیں واپس کرے گی‘ اس کو ختم کردو۔
میں نے اپنا وظیفہ پھر شروع کردیا اور چڑیل کو آگ لگ گئی اور مرگئی جہاں مری تھی وہاں پر سوائے راکھ کے اور کچھ وہاں نہ تھا‘ میں کاشف کو قبرستان میں تلاش کرنے لگا‘ پھر مجھے آواز آئی بیٹا تم مندر کی پچھلی جانب جاﺅ وہاں پر ایک بہت بڑا کمرہ ہے اس میں کاشف قید پڑا ہوا ہے‘ میں نے کاشف کو ساتھ لیا‘ ہم واپس باہر آئے تو ہمیں اپنی موٹرسائیکل دیکھ کر حیرانگی ہوئی کہ یہ ابھی تک یہاں ہے‘ پھر ہم اپنے گھر چل دئے ہمارے گھر والے بڑے پریشان تھے گھر والے کہنے لگے آج آپ کو گھر سے گئے چار دن ہوگئے ہیں‘ ہم نے ان کو مکمل داستان سنائی ‘ وہ بہت حیران ہوئے ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں