٭یتیم وہ نہیں جو والدین کے سائے سے محروم ہوگیا ہو بلکہ یتیم درحقیقت وہ ہے جو اخلاق کی نگرانی سے محروم ہو۔
٭حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے حسن خلق کے بابت دریافت کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سوائے گناہ کے دیگر تمام ا مور میں لوگوں سے اتفاق کرنے کا نام حسن خلق ہے۔
٭حسن خلق یہ ہے کہ تم پر لوگوں کی سختیوں کا اثر نہ ہو۔
٭حسن خلق سے زندگی راحت و آرام سے بسر ہوتی ہے اس کو سب شعار پر مقدم رکھنا چاہئے۔
٭برے اخلاق کی مثال مٹی کے ٹوٹے ہوئے برتن کی سی ہے کہ نہ اس سے کوئی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور نہ اس سے پھر مٹی کا برتن بن سکتا ہے۔
٭بد خلق کو اولاً اس کا خلق تکلیف دیتا ہے جیسا کہ مشاہدے میں آتا رہتا ہے۔
٭اگر تم لوگوں سے دولت میں نہیں بڑھ سکتے تو خندہ پیشانی اور حسن خلق ہی میں آگے بڑھ جاﺅ۔
٭بد اخلاق شخص سے نہ تو مخلوق خوش رہ سکتی ہے نہ ہی خالق۔ تمہارا خلق مخصوص نہیں ہونا چاہئے بلکہ تمہیں ہر ایک نیک و بد، مومن و مشرک سب ہی سے خوش خلقی سے پیش آنا چاہئے۔
٭خالق کی خوشنودی اور مخلوق میں ہر دلعزیزی حاصل کرنے کے لئے اخلاق سب سے بڑا، سب سے بہتر، سب سے زیادہ آسان ذریعہ ہے۔ ٭انسان ہزار عالم و فاضل اور عابد و زاہد ہو اگر وہ حسن خلق سے محروم ہے تو اس کا علم اور اس کی عبادت سب ہیچ ہے۔ اعتقادی طور پر انسان خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو لیکن ہر ایک انسان میں حقیقی جوہر کا ہونا ضروری ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں