جسم کی طاقت کام کرنے سے بڑھتی ہے۔ اگر آپ اپنے جسم کے پٹھوں کو استعمال میں لاتے ہیں تو آپ قوی اور توانا رہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہل جوتنے والا بوڑھا کسان اپنے ہم عمر شخص سے چست و توانا ہوتا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جسم کو کیوں کر مضبوط اور توانا بنایا جا سکتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ پیدل چلنا اور دوڑنا جسم کیلئے بہترین ورزشیں ہیں۔ اپنی زندگی کے شب و روز میں موافق تبدیلیاں لانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ دوڑیے۔ یہ ایک بہترین ورزش ہے۔ صرف دوڑنا ہی ایک ایسی ورزش ہے جس کیلئے نہ کسی ساز و سامان کی ضرورت ہے اور نہ اس پر کچھ خرچ اٹھتا ہے۔ پھر یہ کسی بھی جگہ کی جا سکتی ہے۔ دوڑنے کیلئے وقت کی بھی کوئی قید نہیں۔ صبح ہو یا آدھی رات‘ جو بھی وقت آپ موزوں سمجھیں، یہ ورزشیں کر سکتے ہیں۔
دوڑنا ایک مکمل عضویاتی ورزش ہے۔ اس سے رانوں اور ٹانگوں کے بڑے عضلات متوازن انداز میں کام کرنے لگتے ہیں۔ یہ دل اور پھیپھڑوں کو صحت مند رکھنے کا سستا ذریعہ ہے۔
دوڑنے سے جسم پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں‘ وہ اگرچہ ڈرامائی نہیں ہوتے مگر شان دار ضرور ہوتے ہیں۔ دوڑ صرف ٹانگوں اور پھیپھڑوں کو ہی نہیں‘ پورے جسم کو قوت بخشتی ہے۔ جب آپ باقاعدہ دوڑتے ہیںتو جسم میں نرمی‘ لچک‘ قوت اور طمانیت کا احساس ہوتا ہے اور آپ ایسی شعوری قوت کے مالک بن جاتے ہیں جو شاید کسی اور طریقے سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ مزید برآں چند میل کی دوڑ سے چھوٹی چھوٹی بیماریوں مثلاً دردسر‘ معدے کی گڑ بڑ‘ سگریٹ نوشی کے اثرات بد کی شکایت رفع ہو جاتی ہے۔
بیشتر لوگوں کا انکشاف ہے کہ وہ دوڑ سے نفسیاتی فوائد بھی حاصل کرتے ہیں۔ اس سے دماغی توانائی بھی حاصل ہوتی ہے۔ دوڑ زندگی کو کنٹرول کرنے کا شعور دیتی ہے۔ دوڑ سے اعصابی تناﺅ دور ہو جاتا ہے۔ ورزش یا دوڑ وہ قدرتی نفسیاتی معالج ہے جس کے نتیجے میں انسان کے اندر نہ صرف اپنی ذات کی قدرو قیمت کا احساس بڑھ جاتا ہے بلکہ وہ خود کو پہلے سے کہیں بہتر محسوس کرنے لگتا ہے۔ دوڑ بے چینی اضمحلال اور بہت سی دوسری ناخوشگوار ذہنی کیفیات کا طاقت ور تریاق ہے۔ دوڑ اور پریشانی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ لمبی دوڑ کے بعد ذہن کئی گھنٹے ہر قسم کی پریشانیوں اور تفکرات سے آزاد رہتا ہے۔
بلاشبہ دوڑ دماغی صحت میں اضافہ کرتی اور ذہنی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے‘ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ دوڑنے سے دماغ کو وافر آکسیجن ملتی ہے‘ جس سے اس کی صلاحیت بہتر ہو جاتی ہے۔ ایک اور سبب یہ ہے کہ جسم اور دماغ میں نہایت قریبی تعلق ہے۔ چنانچہ جہاں دوڑ سے جسم کو فائدہ ہوتا ہے وہاں دماغ کو بھی توانائی ملتی ہے۔
آپ اپنی غذاﺅں میں تبدیلی کریں یا نہ کریں‘ دوڑ ضرورموٹاپا کم کر دیتی ہے۔ اگر آپ روز بہ روز موٹے ہوتے جارہے ہیں تو دوڑنا شروع کر دیجئے۔ موٹاپا فوراً کم ہونے لگے گا۔ دوڑنے والے لوگ نہ دوڑنے والوں سے زیادہ غذائی حرارے خرچ کرتے ہیں۔ دوڑ یا جوگنگ کے ذریعے سے عورتیں ایک سال کے عرصے میں دس بارہ پونڈ اور مرد بیس سے زائد پونڈ وزن کم کر سکتے ہیں۔ اگرچہ دوڑ کی طرح بعض دوسرے کھیل بھی صحت کیلئے مفید ہوتے ہیں‘ تاہم دوڑ کر ہم اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ یہ وقت اور پیسہ بچانے والا کھیل ہے۔
اگر آپ قدرے عمر رسیدہ ہیں تو معالج سے مشورہ کر کے ناشتے سے پہلے سیر کریں اور اگر آپ نوجوان ہیں تو ناشتے سے پہلے دوڑ لگا لیا کیجئے۔ اگر آپ کو زندگی عزیز ہے تو اپنی زندگی کی خاطر دوڑیے‘ لیکن یہ خیال ضرور رکھیے کہ اس سے گھٹنوں اور پیروں کے جوڑوں پر غیرمعمولی بوجھ نہ پڑے۔ یہ ضروری ہے کہ دھیرے دھیرے ورزش کی عادت ڈالی جائے تاکہ جوڑ زخمی ہونے سے محفوظ رہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں