Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

بچوں کا صفحہ

ماہنامہ عبقری - فروری 2009ء

شیطان کی پکار (رابعہ ذوالفقار ۔ فیصل آباد) حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شا د فر ما یا جب ابلیس زمین پر آنے لگا تو اس نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا اے پروردگار ! تو مجھے زمین پر بھیج رہا ہے اور راندہ در گا ہ کر رہا ہے ، میرے لیے کوئی گھربھی بنا دے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تیرا گھر حمام ہے ۔ اس نے عرض کیا میرے لیے کوئی بیٹھک بھی بنا دے ۔ فرمایا بازار اور راستے تیری بیٹھک ہیں۔ عرض کیا میرے لیے کھا نا بھی مقرر فرما دے ۔ فرمایا تیرا کھا نا ہر وہ چیز ہے جس پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا جائے ۔ عرض کیا میرے پینے کے لیے بھی کوئی چیز مقرر کر دیجئے ۔ فرمایا ہر نشہ آور چیز تیرا مشروب ہے ۔ عرض کیا مجھے اپنی طر ف بلانے کا کوئی ذریعہ بھی عنا یت فرما دے ۔ فرمایا با جے ، سا ز ، تیری منا دی ہیں۔ عرض کیا کچھ لکھنے کے لیے دےدے ۔ فرمایا جسم میں گو دنا ، تیری لکھائی ہے ، عرض کیا میرے لیے کوئی کلا م بھی مقرر فرما دے ۔ فرمایا جھوٹ تیرا کلام ہے ۔ عرض کیا میرے لیے جا ل بھی بنا دے فرمایا عورتیں تیرا جال ہیں ۔ ہما را روشن کر دار (سعید الرحمن سعید ، صوا بی ) قرطبہ میں ایک عر ب اپنے با غ کی سیر کر رہا تھا ، اچانک ایک ہسپانوی دوڑتا ہو ا اس کے پا س آیا اور اس کے پائو ں پر گر کر درخوا ست کی کہ مجھے اپنے ہا ں پنا ہ دے دو۔ پکڑنے والے میرے پیچھے آرہے ہیں کیونکہ میں نے ایک نو جو ان عرب کو تلوار سے مو ت کے گھا ٹ اتار دیا ہے ۔ وہ شخص اس کی حالت زار پر رحم کھا کر اسے اپنے ہا ں پناہ دینے پر آما دہ ہو گیا اور اسے اپنے گھر لے جا کر ایک کمرے میں بند کر دیا تا کہ اگر ضرورت پڑے تو اسے رات کے وقت بھاگنے کا موقع بھی مل جائے۔ تھوڑی دیر کے بعد لو گ اس کے اکلو تے بیٹے کی لا ش لے آئے۔ عر بی شخص نے پو چھا اس کو کس نے قتل کیا ہے ۔ انہو ں نے قاتل کا حلیہ بتا یا تو عر بی نے حلیہ سن کرجھٹ معلوم کر لیا کہ وہ وہی ہسپانوی ، جس کو اس نے پنا ہ دی ہے ، اس کے اکلوتے بیٹے کا قاتل ہے ۔ لیکن اس نے اپنے جذبات کو دبائے رکھا ۔ اس نے آدھی رات کے وقت مکان کا دروازہ کھولا اور اسے با ہر نکال کر کہا ” اے ہسپانوی ! جس کو تو نے قتل کیا ہے ، وہ میری آنکھو ں اور دل کا سرور تھا ، تیرا جرم بڑا سنگین ہے تو سخت سزا کا مستحق ہے لیکن میں نے تجھے پنا ہ دینے کا وعدہ کیا ہے ۔ اس نے ایک نہا یت تیز رفتا ر گھوڑا اسے دے کر کہا کہ ابھی رات کی تاریکی میں بھا گ جائو ۔ ممکن ہے صبح میرے کسی رشتےدار کو پتہ چل جائے اور وہ تمہیں تکلیف پہنچائے ۔ با برکت ہستی (عبداللہ ) دوپہر ہو چکی تھی ۔ اُم معبد رضی اللہ عنہ اپنے خیمے کے آگے سائے میں چادر اوڑھے بیٹھی تھیں ۔ وہ بڑی بہا در اور توانا عورت تھیں ۔ انہیں صحرا میں اس طر ح اکیلے ڈر نہیں لگتا تھا ۔ سامنے سے ایک چھوٹا سا قافلہ آتا دکھائی دیا ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، اپنے دو ست اور ساتھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے ، ان کے ساتھ عامر رضی اللہ عنہ بن فہیرہ بھی تھے ۔ یہ مبارک قافلہ مکے سے ہجر ت کر کے مدینے جا رہا تھا ۔ خیمے کے پا س پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے ۔ چونکہ ز ادِ راہ ختم ہو چکا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی بھو کے تھے ، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور یا گو شت خریدنے کے ارا دے سے ام معبد سے پو چھا : ” کوئی چیز کھانے کے لیے ہے ؟“ یہ قحط کا زمانہ تھا اور ام معبد کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا ۔ بڑے افسو س کے ساتھ جو اب دیا : ”واللہ ! اگر ہما رے پا س کچھ ہو تا تو ہم آپ کی مہمان داری کرتے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک بکری پڑی جو خیمے کے ساتھ بندھی ہوئی تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا : ” ام معبد رضی اللہ عنہ یہ بکری کیسی ہے ؟“ انہوں نے جوا ب دیا : ” یہ بکری بہت کمزور ہے ۔ دوسری بکریو ں کے ساتھ چل نہیں سکتی، اس لئے دوسری بکریا ں چرنے چلی گئی ہیں اور یہ یہا ں رہ گئی ہے ۔ “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پو چھا : ” ا س کا کچھ دودھ بھی ہے ؟“ ام معبد رضی اللہ عنہ نے جوا ب دیا : ” اس کے لیے دودھ دینا ، جنگل میں چرنے کے لیے جانے سے بھی مشکل ہے ۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ ’تمہا ری اجازت ہو تو میں اس کا دودھ دوہ لو ں ؟“ ام معبد رضی اللہ عنہ بولیں : ” میرے ما ں با پ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہو ں ! اگر اس کا دودھ ہو تو ضرور دوہ لیجئے ۔ “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ کہہ کر بکری کے تھن پر ہا تھ پھیر ا اور فرمایا : ” اے اللہ ! ام معبد رضی اللہ عنہ کی بکر ی میں برکت دے ۔“ اس بکری نے ٹانگیں پھیلا دیں اور اس کے تھنو ں میں دودھ بھر گیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام معبد رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ” دودھ والا بر تن دے دو ۔ “ ” ام معبد رضی اللہ عنہ نے وہ بر تن سامنے رکھ دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ دوہا ۔ دودھ تھا کہ چلا آتا تھا ۔، یہاں تک کہ بر تن منہ تک بھر گیا اور جھا گ اوپر تیرنے لگی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ برتن اُم معبد رضی اللہ عنہ کو دیا اور فرمایا : ” ام معبد رضی اللہ عنہ ! .... پیو “ اُم معبد رضی اللہ عنہ نے خوب پیٹ بھر کر دودھ پیا ۔ جب وہ سیر ہو گئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو دیا ، پھر وہ پی چکے تو حضرت عامر رضی اللہ عنہ سے ارشاد ہواکہ پئیں ۔ انہو ں نے عرض کیا : ” یا ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پہلے آپ پئیں !“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” نہیں .... پلانے والے کو سب سے آخر میں پینا چاہیے ۔ “ جب وہ بھی پی چکے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے آخر میں خود دودھ پیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بر تن دو با رہ اُم معبد رضی اللہ عنہ کو دیا اور پھر اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو ۔ سب نے با ری با ری دودھ پیا ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بر تن میں دو با رہ دودھ دوہا اور دودھ سے بھرا بر تن اُم معبد رضی اللہ عنہ کو دیتے ہوئے فرما یا : ” ام معبد رضی اللہ عنہ ! یہ رکھو، تمہاری ضرورت پو ری کرے گا ۔“اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر اُم معبد رضی اللہ عنہ کے خیمے میں آرام فرمایا اور پھر آگے سفر پر روانہ ہو گئے ۔ کچھ ہی دیر گزری ہو گی کہ اُم معبد رضی اللہ عنہ کے شوہر ابو معبد رضی اللہ عنہ اپنی بکریا ں ہنکاتے ہوئے جنگل سے وا پس آگئے ۔ ان بکریو ں کی ایسی حالت تھی کہ کمزوری کی وجہ سے کھا ل ہڈی سے لگی ہوئی تھی اور چلنا تک دو بھر تھا ۔ انہو ں نے بر تن میں جو دودھ بھر ا دیکھا، تو سخت تعجب ہوا .... پو چھا : ’ ’ یہ دود ھ کہا ں سے آیا ؟بکریا ں تو چر نے گئی ہوئی تھیں اور گھر میں کوئی دو دھ دینے والی بکری نہیں تھی۔“ اُم معبد رضی اللہ عنہ نے جوا ب دیا : ” واللہ! یہ ایک بڑی ہی بابرکت ہستی کے یہا ں قدم رکھنے سے ہو ا ہے ۔“ ابو معبد رضی اللہ عنہ نے کہا : ”اے ام معبد رضی اللہ عنہ ! ذرا مجھے ان کا حلیہ بتائو ۔“ ام معبد رضی اللہ عنہ بو لیں : ” وہ ایک بڑے پا کیزہ انسان تھے ۔ ان کا چہرہ نورانی اور اخلاق اچھے تھے ۔وہ بہت خوبصورت تھے ۔ وہ جب بولتے تھے تو ایسا لگتا تھا ، جیسے مو تی گر رہے ہوں۔ جب خاموش ہوتے تھے تو ان پر وقار چھا جا تا تھا ۔ ان کی زبان میٹھی اور باتیں سچی تھیں ۔ ان کا قد بہت متنا سب تھا۔ وہ اپنے ساتھیو ں میں سب سے ممتا ز اور سب سے حسین تھے۔ ان کے ساتھی ایسے تھے کہ جب وہ کچھ کہتے تھے تو وہ ادب اور خامو شی سے سنتے ، جب کوئی حکم دیتے تو اسے کرنے کے لیے دوڑتے ۔ نہ وہ بد مزاج تھے اور نہ زیا دہ با تیں کرنے والے ۔“ ابو معبد یہ سن کر بول اٹھے : ” واللہ ! .... یہ تو وہی ہیں جن کا ہم نے ذکر سنا ہے .... اگر میں اس وقت آجا تا ، جب وہ یہا ں تھے تو میں ان سے درخواست کر تا کہ مجھے اپنے ساتھ رکھ لیجئے .... اُم معبد ! اگر تمہیں اس کا مو قع ملے تو ضرور ایسا کرنا ۔ “
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 693 reviews.