۔دعوت عقیقہ میں شرکت: یہ واقعہ ختم ہوا تو ہم اٹھ کھڑے ہوئے کیونکہ ہمیں ایک تقریب میں جانا تھا‘ ایک پہاڑی جن جو کہ بہت بڑا سردار تھا اس کی اولاد نہیں ہورہی تھی۔ بہت سال اس نے اللہ سے دعائیں کیں‘ پھر اس دوران نامعلوم اسے کس نے کہا‘ اس نے بہت مندروں اور منحوس چشموں پر جانا شروع کردیا لیکن پھر کسی اللہ والے کی اس کو نصیحت ملی اور اس نے مندروں اور چشموں پر جانا چھوڑ دیا۔ پھر آخرکار اسے کسی نے اللہ کا نام دیاکہ تو کثرت سے یاتواب یاباری پڑھ۔ اس نے یہ پڑھنا شروع کردیا اور اس کے پڑھنے سے اس نے یہ لفظ کوئی تین سال پڑھے اور بہت یقین سے پڑھے ‘سینکڑوں ہزاروں لاکھوں بلکہ اس سے کہیں زیادہ پڑھے ۔ہر سانس ‘ہر لمحہ ‘ہروقت ‘ہر حالت ‘ہر قدم اس نے اور اس کی بیوی نے بھی پڑھا اللہ نے اسے چاند سا بیٹا دیا۔ اب وہ اس کے عقیقہ کرنا چاہ رہا تھا اور بہت ہی زیادہ اس نے مخلوق کو بلایا تھااس نے مجھے بھی بلایا تھا بلکہ اس کا پیغام آیا تھا کہ علامہ صاحب آپ میرے بیٹے کےعقیقے میں ضرور تشریف لائیں اور اپنے مخلص احباب کے ساتھ آئیں لہٰذا آج ہم جمع ہوئے تھے ہم نے وہاں جانا تھا اور فوقانی ثانی نے درمیان میں اپنا واقعہ سنادیا۔شیر کے منہ والی گدھ نما سواری: ہم اٹھے میرے گھر کی چھت پر ہماری سواری انتظار کررہی تھی اور وہ ایک بہت بڑی سواری تھی جس کے اندر پر ہی پر تھے وہ گد ھ یا چیل نما ایک سواری تھی لیکن اس کا منہ ایسے تھا جیسے شیر کا منہ ہوتا ہے۔ اس کے پاؤں ایسے تھے جیسے شیر کے پاؤں ہوں اور اس کے اندر پروں سے بنی ہوئی گدیاں یا سیٹیں تھیں‘ اس سواری میں بیک وقت پچپن آدمی سوار ہوسکتے تھے‘ بہت ہی کشادہ سواری تھی‘ وہ پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے اندر سے مسلسل ایک حیرت ناک اور ہیبت ناک آواز نکل رہی تھی۔ اس سواری نے میری چھت پر قیام کیا ہوا تھا وہ ہمیں لینے آئی تھی اور یہ سواری اسی پہاڑی سردار جن نے ہمارے لیے اسپیشل بھیجی تھی ہم نے اس پر سوار ہوکر آنا تھا۔ اس سواری کے چاروں طرف جنات گارڈ تھے جو ہماری حفاظت کیلئے تھے۔ میں سوار ہوا اور میرے تمام مخلصین سوار ہوئے‘ سب سے آگے صحابی جن بیٹھے ان کے ساتھ میں بیٹھا اور اس کے بعد تمام مخلصین بیٹھے۔ ہماری سواری اڑی اس دفعہ اس کے اڑنے کا انداز کچھ اور تھا اس کے اندر ایک سےحیرت انگیز آوازیں نکلیں‘ خوفناک چیخیں آہ و پکار یا درد ناک آوازیں میں انہیں کون سے لفظ کہوں اور کس سے تشبیہ دوں وہ آوازیں نکلیں اس کے بعد ایک آندھی سی چلی اور ایسی آندھی کہ شاید وہ چھتوں کو اڑا کر رکھ دے۔29 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار: اس کے بعد وہ آواز وہ سواری اٹھی اور بہت اوپر اڑتی چلی گئی حتیٰ کہ ہم بادلوںسے بھی اوپر نکل گئے وہ بہت تیزی سے سواری سفر کررہی تھی میں نے نیچے جھانکا تو مجھ سے نیچے شہر کی روشنیاں‘ چاند تاروں کی طرح اور ستاروں کی طرف ٹمٹماتی نظر آئیں اور ایسے محسوس ہوا کہ میں بہت ہی زیادہ اوپر ہوں وہ سواری بہت تیزی سے سفر کررہی تھی۔ ان کے جو چیف گارڈ تھے انہوں نے ہمیں مشروب پیش کیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ یہ سواری کتنی تیز چل رہی ہوگی تو مجھے کہنے لگے: زمین کی رفتار کے مطابق یہ 29 ہزار میل فی گھنٹہ ہے یعنی ایک گھنٹے میں یہ سواری 29 ہزار میل سفر کرتی ہے۔ میں حیران ہوگیا‘ میں حیران ہوا کہ یہ ہمیں کہاں لے جارہےہیں‘ دنیا کا سفر تو اتنا لمبا نہیں اگر 29 ہزار میل فی گھنٹہ ہے تو شاید ہم کتنی ہی دیر میں دنیا کے ایک کونے سےدوسرے کونے میں پہنچ جائیں لیکن وہ سواری مسلسل چل رہی تھی اور بہت تیزی سے سفر کررہی تھی۔ اور ہم کسی اور جہان میں پہنچ گئے: آخرکار مجھے احساس ہوا کہ شاید یہ کوئی اور جہان ہے اور یہ کوئی اور جہان کی مخلوق ہے جنہوں نے جنات کا روپ دھارا ہوا ہے کچھ ہی دیر میں میرے سامنے نقشے بدلنا شروع ہوئے انسانوں کی دنیا ختم ہوگئی تھی پھر ایک اور دنیا شروع ہوگئی اس کے پہاڑ اور تھے اس کی زمین اور تھی‘ اس کے آسمان اور تھے‘ اس کےدرخت اور تھے‘ اس کی چیزیں اور تھیں وہ کیا تھیں؟ مجھے ان کے نام نہیں آتے۔ لیکن وہ زمین اور کائنات اور وہ سلطنت اور وہ زندگی ہی اور تھی۔ صحابی بابا کے علاوہ باقی سب اس کو حیرت سے دیکھ رہے تھے لیکن ان کی حیرت پھر بھی کم تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ صحابی بابا کو اس سارے عالم کا پتہ ہے اور ان باقی جنات کو اس کی خبر ہے لیکن میں اس عالم میں پہلی دفعہ داخل ہوا تھا ‘وہ سواری مزید چلتی رہی تین گھنٹے کی مسلسل مسافت کے بعد ہم ایک بہت بڑی پہاڑی کے دامن میں اترے‘ سرسبز پہاری تھی‘ شاید ایسی سرسبز پہاڑی آج تک دنیا میں میں نے کہیں نہیں دیکھی خوشبو تھی جیسے ہرطرف عطر ہی عطر اور خوشبو ہی خوشبو گھولی ہوئی ہے پھول تھے‘ کلیاں تھی‘ سبزہ تھا‘ بہت خوبصورت گھر بنے ہوئے تھے‘ وہاں کے لوگ تھے لیکن میں انہیں انسان نہیں کہہ سکتا میں انہیں جن نہیں کہتا تھا وہ ایک دنیا تھی وہ ایک انوکھا جہان تھا اس انوکھے جہان میں مجھے سکون محسوس ہوا مجھے بہت راحت محسوس ہوئی ان کے برتن تھے لیکن وہ ہماری طرح نہیں تھے ان کے کھانے تھے لیکن ہماری طرح نہیں تھے ان کے مکان تھے پر وہ کیسے تھے میں انہیں کس انداز سے بیان کروں؟ بہرحال وہ ایک جہان تھا۔ اس جہان کو دنیا نہیں جانتی:اس جہان کی زبان اور تھی‘ ان کا انداز اور تھا‘ ان کا لباس اور تھا میں نے جاتے ہی ان سے پوچھا آپ نے یہ کیاکیا؟ آپ تو کہتے تھے کہ ہم جنات ہیں کہنے لگے: کہ ہم جس جہان سے تعلق رکھتے ہیں ان جہان والوں کا دنیا کو پتہ نہیں اور دنیا اس جہان کو نہیں جانتی اور دنیا اس جہان سے واقف نہیں لیکن یہ جہان ہے اور اس جہان میں بھی بہت بڑے جہان ہیں میں نے پوچھا کیا آپ حضرت محمد ﷺ کے امتی ہیں‘ حضور پرنور ﷺ کا نام سنتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو بہے اور کہنے لگے کس ہستیﷺ کا نام لے لیا‘ ہم سارے حضور ﷺ کی امتی ہیں ‘ہم حضور ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں‘ اس جہان کے اس فرد نے مجھے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ سنایا اور مجھے قرآن بھی دکھایا۔ ابھی باتیں ہوہی رہیں تھی کہ ایک بہت بڑی سواری آئی اس کی شکل بھی شیر کی طرح تھی لیکن وہ ہماری سواری سے بہت ہی زیادہ بڑی تھی ایک دم کہنے لگے کہ ہمارےآقا اور سردار آگئے ہیں آپ کا استقبال کرنے کیلئے۔انوکھے جہان کا انوکھا مشروب: آپ ہمارے جہان کی حدود میں چونکہ داخل ہوچکے ہیں اور وہ ہمارے جہان کی حدود میں ہی آپ کا استقبال کرنے آئے ہیں وہ سواری اتری۔ ہم اپنی سواری میں بیٹھے ایک مشروب پیش کیا اس کے ذائقے میں الائچی تھی لونگ تھا‘ لیچی تھا نامعلوم کون سا ذائقہ تھا وہ ایسا ذائقہ تھا جس کا ایک ایک گھونٹ دل کو فرحت‘ ایک ایک گھونٹ جسم کو مروت اور ایک ایک گھونٹ زندگی اور جوانی کوبڑھا رہا تھا اور جسم کے اندر ایک راحت اور فرحت کی کیفیت تھی میں اس ذائقہ میں مدہوش تھا میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ کہا کہ یہاں کے پھلوں کا رس ہے اور پاکیزہ رس ہے جس میں کوئی خمیر نہیں‘ شراب نہیں اور یہ پاکیزہ مشروب ہے۔ اتنی ہی دیر میں وہ سواری اتری اور اس میں سے استقبال کے ساتھ اور بہت زیادہ خدام کے ساتھ ایک ہستی آئی۔ اب میرا جی چاہتا ہے کہ قارئین! میں کچھ اس جہان کے نام کا پتہ نہیں میں اس کو کیا نام دوں لیکن میں یہاں اس کو ایک انوکھا جہان ضرور کہوں گا لہٰذا میرے پاس اس کا نام انوکھا جہان نام بن سکتا ہے۔انوکھے جہان کے سردار کا استقبال: اس انوکھے جہان کے سردار جب میرے پاس آئے بہت تپاک سے ملے، حیرت انگیز بات وہ یہی بولی بولتے تھے میں نے پوچھا آپ کی زبان کیا ہے ہماری ایسی زبان ہے جس کا نام آپ نہیں جانتےہمارا ایسا جہان ہے جس جہان کا نام آپ نہیں جانتے لیکن یہ جہان ہے اور اس کے اندر بے شمار جہان ہیں اور یہ صرف ایک جہان نہیں‘ ایسے بے شمار جہان ہیں میں حیرت سے ان کی بات سن رہا تھا۔اس جہان میں نہ چوری‘ نہ ڈکیتی‘ نہ فریب‘نہ جھوٹ‘ نہ قتل: ان کے لہجے میں مٹھاس تھی‘ ان کی گفتگو میں پیار تھا باتوں ہی باتوں میں پتہ چلا کہ اس جہان میں چوری نہیں‘ڈاکہ نہیں فریب نہیں جھوٹ نہیں فریب نہیں بداخلاقی نہیں نفسانی خواہشات نہیں یہاں شادیاں ہوتی ہیں یہاں اولاد ہوتی ہے لیکن یہاں جرائم نہیں ہوتے۔ یہاں قتل و غارت نہیں اور یہاں کفر کانشان تک نہیں نام تک نہیں۔ اس کا گمان تک نہیں۔ میں نے جب اس کا تذکرہ کیا تو کہنے لگے کہ ہم آپ کے انسانوں کے جہان کے نظام کو جانتے ہیں وہاں جو کچھ ہے اس کو بھی خوب پہچانتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ چیز نہیں ہم ان چیزوں سے پاک ہیں اور بہت زیادہ ہمارے ہاں سکون ہے‘راحت ہے خوشیاں ہیں‘ کامیابیاں ہیں ‘آپس میں محبت ہے‘آپس میں پیار ہے۔ ہم اس جہان کو بہت زیادہ کائنات کا بہترین جہان سمجھتے ہیں ہم اسے جنت تو نہیں کہہ سکتے جنت کا اپنا ایک جہان ہے لیکن اسے جنت کا ایک ٹکڑا ضرور کہہ سکتے ہیں۔ ہم چل پڑے سواریاں ہم نے چھوڑ دیں ہم پیدل چل رہے تھے‘ میرے پاؤں کے نیچے زمین تھی لیکن وہ زمین نہیں تھی وہ کوئی اور چیز تھی میں اسے زمین ہی کہوں گا‘ سبزہ تھا خوشیاں تھی عطر تھا معطر تھا وہاں سکون تھا وہاں چین تھا ‘وہاں راحت تھی ‘وہاں خوشبو تھی ہم چل رہے تھے۔ سامنے ایک موتی کی طرح سفید محل جو کہ اس سردار کا محل تھا۔ ایک دم اس کا دروازہ خودبخود کھلا ہم اس کےاندر داخل ہوگئے‘ دائیں طرف گلدستے اور گدان تھے بائیں طرف خدام کھڑے تھے اور سامنے ایک نقشہ نظر آیا۔انوکھے جہان کا انوکھا نظام: میں نے محسوس کیا کہ شایدبہت بڑی سینری ہے ‘اس سینری کے اندر ایک اور دنیا نظر آئی جس میں لوگ ہیں پرسکون ہیں جس میں دنیا ہے کوئی تسبیح میں‘ کوئی ذکر میں‘ کوئی سجدے میں‘ کوئی تلاوت میں ‘کوئی درود و سلام میں‘ میں نے اس سینری کو دیکھنے لگا‘ انگلی بڑھا کر میں نے اس سینری کو انگلی لگائی انگلی اس کے پار چلی گئی میں حیران ہوا یہ سینری نہیں کہا نہیں یہ ایک اور جہان ہے اس جہان کا یہ نقشہ میں نے یہاں محل میں لگایا ہوا ہے اور یہ وہ اس جہان کو میں دیکھتا رہتا ہوں یہ جہاں ہم سے بھی زیادہ انوکھا جہان ہے اور یہ جہان ہم سے بھی زیادہ دلفریب اور پرکشش جہان ہے میں حیرت سے ان کی اس کیفیت کو دیکھ رہا تھا مجھ سے کہنے لگے آگے تشریف لائیں۔ آگے اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز دنیا‘ حیرت انگیز نقشے ان کے بڑے بڑے کمرے تھے‘ ان کمروں میں بڑے بڑے برتن، فانوس، روشنیاں، بستر، مسہریاں وہ ایک جہان تھا۔ اس کے اندر پراسراریت تھی یا وہ ایک جادو کاجہان تھا یا پھر حقیقت کا جہان تھا لیکن وہ جادو کا جہان نہیں تھا‘ وہ حقیقت کا جہان تھا اور اس حقیقت کے جہان کو میں اپنی کھلی آنکھوں کےساتھ دیکھ رہا تھا اور میرا دل مان رہا تھا کہ یہ حقیقت کا جہان واقعی ایسا جہان ہے جس کو آج تک میں نے نہ کہیں سنا نہ میں نے کبھی سوچا نہ اس کا احساس ہوا نہ اس کا ادراک ہوا نہ اس کےبارے میں آج تک کبھی کوئی خیال ہوا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں