۔ اس جہان سے اپناملک‘ شہر اور گھر دیکھا: میں ساری دنیا دیکھ رہا تھا اور سارے جہان کو دیکھ رہا تھا اس سارے جہان کو دیکھتے ہوئے میں بہت حیرت میں تھا کہ اچانک مجھے خیال آیا کہ میں اپنے گھر کو تو دیکھو‘ بس خیال آتے ہی ایک پل میں میرا شہر آیا اور شہر کی طرف گیا تو میرا گھر‘ گلیاں اور گلیوں سے میں گھر میں گیا میں نے اپنے گھر کے سارے افراد کودیکھا میں نے اپنے پڑوسیوں کو دیکھا‘ میں حیرت سے یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا میری حیرت تھی ۔قارئین! میں اپنی اس حیرت کو لفظوں اورکیفیتوں میں بار بار لفظوں کی کمی کا احساس ہورہا ہے اور اس کا اعتراف کررہا ہوں لیکن لفظ ہیں کہ میرا ساتھ نہیں دے رہے۔ میں سارا گھر اور سارا نقشہ دیکھ رہا تھا ہر چیز میری آنکھوں کے سامنے کھلی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں آگے بڑھنے کی ترتیب بتائی‘ ہم آگے بڑھے‘ ایک موتی نما پہاڑ پر ہم چڑھنا شروع ہوگئے پہاڑ بہت بڑا تھا‘ شاید دنیا آخری چوٹی ہو اس سے بھی بڑی ہو لیکن چڑھتے ہوئے احساس ہورہا تھا کہ پہاڑ کے قدم خود بخود ہمیں اٹھا کر آگے کررہے اور اگلے قدم پر پہنچا رہے اور یہ انداز اور کیفیت کیسی تھی اس انداز اور کیفیت کو میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا آخر کار چند ہی لمحوں میں ہم پہاڑ کی آخری چوٹیوں پر تھے موتیوں کے بنے بڑےبڑےوہاں تخت تھے‘ کرسیاں تھے‘ اورموتیوں سے بنے ہوئے چشمے تھے اور ان موتیوں میں سے پانی نکل کر بہہ رہا تھا اور پانی میں ایسی خوشبو تھی کہ پانی کا ایک گھونٹ پیا آج بھی پانی کے گھونٹ کی لذت اورخوشبو میرے منہ میں ہے اور جب بھی تصور بھی کرتا ہوں اسی پانی کے گھونٹ کی لذت میں کھو جاتا ہوں میں وہاں دیکھتا رہا مجھے ساری کائنات کا نظارہ نظر آیا کائنات اتنی بڑی ہے رب کتنا بڑا ہوگا۔ رب کو اتنا نہ مانا جتنا ماننا تھا:قارئین! اس سفر میں مجھے اللہ کی عظمت‘ اللہ کی قوت‘ اللہ کی ہیبت اور اللہ کی طاقت کو اتنا واضع کرکے دکھایا اتنا واضح کرکے دیکھا کہ میں اللہ کی ہیبت، اللہ کی عظمت اور اللہ کی قوت کو پہلے بھی مانتا تھا اور پہچانتا تھا لیکن اس واقعہ کے بعد مجھے عظمت اور قوت کی ماننے اور پہچاننے کی کیفیت اتنا زیادہ اور آگے بڑھی اتنا زیادہ اور آگے بڑھی کہ میری حیرت اور میں اپنی حیرت کے جہان میں بہت ڈوب گیا اور مجھے احساس ہوا کہ میں نے رب کو جتنا ماننا تھا اتنا نہ ماننا ‘میں نے رب کو جتنا جاننا تھا اتنا نہ جانا میں نے رب کو جتنا چاہنا تھا اتنا نہ چاہا میں نے رب کی جتنی تابعداری کرنی تھی اتنی نہ کی میں نے رب کو جتنا پوجنا تھا اتنا نہ پوجا۔ میں اسی کیفیت کے ساتھ اور زیادہ متاثر ہوا‘ پریشان ہوا‘ پریشان سے مراد کہ مجھے احساس ہوا کہ میں اس جہان کو کیسے سمجھوں۔ میں اس جہان کو کیسے جانوں لیکن میری عقل‘ میرا شعور‘ میرا احساس ‘ادراک سب جواب دے چکا تھا اور میں اپنی زندگی میں وہ لمحات بہت قیمتی سمجھ رہا تھا جن لمحات میں میں نے یہ انوکھا جہان دیکھا اور مجھے احساس ہورہا تھا کہ آج تک میں اس انوکھے جہان سے دور کیسے رہا؟
اور اس انوکھے جہان کو کس طرح میں چھوڑ کر بیٹھا رہا۔ قیمتی نادر تحائف کے ساتھ واپسی:قارئین !اس کے بعد ہمارا واپسی کا سفر ہوا انہوں نے مجھے بہت قیمتی نادرتحائف تھے اور بہت زیادہ تھے بہت زیادہ ہیرے جواہرات تھےجو دنیا کے اعتبار سے کروڑوں روپے یا کھربوں روپے کےتھے مجھے کوئی اندازہ نہیں لیکن میں ایک گمان کررہا ہوں پر اچانک میرے دل میں ایک بات پیدا ہوئی کہ میں یہ سارے تحائف باورچی جن کو دے دوں اور فوقانی ثانی کو دے دوں۔ دونوں بہت سفید پوش اور غریب ہیں میں نے وہ سارے تحائف ان کو دے دئیے۔ انہوں نے سب کو تحائف دئیے میں نے ان کو یہ تحائف دئیے تو وہ خوش ہوگئے۔ میں اٹھ کر گھر واپس لوٹ آیا۔ میں کئی دن تک اس نظام کو سوچتا رہا اتنا میں نے نظام دیکھا اگر میں اس کو لفظوں کو بیان کرنا شروع کردوں میں جتنا بیان کیا لاکھوں کروڑوں میں سے ایک نقشہ بیان کیا ہے اس نقشے کو میں بیان کرہی نہیں سکتا۔ ان کے تصور کو اور اس کے خیال کو سوچ ہی نہیں سکتا وہ تصور کیسا تھا وہ خیال کیسا تھا کیفیت کیسی بھی وہ احساس کیسا تھا وہ انداز کیسا تھا وہ ایک جہان تھا اور انوکھا جہان تھا اور اللہ ہے اور اللہ کی طاقت ہے اور اللہ کی قوت ہےاور واقعی سورۂ فاتحہ میں الحمدللہ رب العالمین فرما کر ہمیں سارے عالم اور ساری انسانیت کو ایک نظام دیااور سارے عالم میں ساری انسانیت کیلئے ایک کیفیت تھی ہم اس نظام کو مسلسل میں نے زندگی کےنظام میں پلٹے ہم واپس آئے اور واپس آکر میں اپنے گھر میں آیا۔ اس سواری نے مجھے اتارا اور اس سواری نے مجھے اتارا اور مجھے اتار کر وہ سواری چلی گئی۔ جب وہ سواری چلی گئی‘ میں نیم دراز ہوگیا میں کچھ تھکا ہوا تھا اور میرا جسم اس جہان کے نشے سے چور تھا اس دوران میں سو گیا اور خواب دیکھتا ہوں اور میں نے ایسی خواب دیکھا۔علامہ صاحب نے پہلی مرتبہ اپنا خواب سنایا: قارئین! میرا سلسلہ بہت دراز چل رہا‘’’جنات کا پیدائشی دوست‘‘ کے نام سے بہت سالہا سال ہوگئے شاید میں نے آج تک اپنا خواب کبھی بھی بیان نہ کیا ہو لیکن اس جہان سے واپسی کے بعد مجھے ایک خواب آیا وہ خواب میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے خواب دیکھا:۔’’ میں ایک جنگل میں ہوں‘ بہت ویران جنگل ہے میں تنہا جارہا ہوں اور مجھے خوف نہیں‘ وحشت نہیں‘ ڈر نہیں بہت اطمینان ہے۔نہ پھول ہیں نہ کلیاں‘ بس ایک گردو غبار ہے اور جنگل میں مجھے درندے جانور واضح نظر آرہے ہیں اور جنگلی درندے واضح نظر آرہے ہیں‘ سانپ بچھو واضح نظر آرہے ہیں جو کہ اپنی زندگی میں دن رات وہاں گزار ہیں احساس ہورہا ہے کہ وہ مجھے تکلیف دینے کا خیال نہیں رکھتے بس وہ اپنی زندگی کی مصروفیات میں مصروف ہیں۔ میرا سفر بہت لمباہے‘پھر مسلسل سفر میں جارہا ہوں اچانک مجھے احساس ہوتا ہے کہ سامنے ایک ٹیلہ ہے اور اگر میں ٹیلے کی ریت ہٹاؤں گا اس ٹیلے کے آتے ہی میں اس ٹیلے کی طرف بڑھا‘ میں نے ہاتھوں سے ریت ہٹانا شروع کردی‘ میں ریت ہٹاتا گیا ریت ہٹاتا گیا ریت ہٹاتا گیا‘ ریت کے ہٹتے ہی میں نے محسوس کیا کہ ریت بہت زیادہ ہٹنے کے بعد مجھے ایک دروازے کا احساس ہوا میں نے دروازہ کے احساس کو پاتے ہی میں نےمحسوس کیا کہ اب دروازہ بڑھا ہورہا اور واضح ہورہا آخر وہ دروازہ تھا اور میں نےدروازہ کو مزید قریب سے دیکھ کر اس کو کھولنے کی کوشش کی میری تھوڑی سی کوشش سے وہ دروازہ کھل گیااور میں اس دروازہ کے اندر داخل ہوگیا۔ اس میں نیم تاریکی تھی لیکن میرے اندر قدم رکھتے ہی اس کے اندر روشنی پیدا ہوگئی میرے پاؤں کے خود بخود چل رہے تھے سیڑھیاں تھیں میں سیڑھیاں اترتا گیا ایک بہت بڑا حال جس کے چاروں طرف لاشیں اور مردے پڑے ہوئے تھے ایک صندوق تھے جس کے چاروں طرف مردے اور لاشیں پڑی تھیں سب میتیں تھیں لیکن تازہ تھیںاس مین عورتیں بھی تھیں بچے بھی تھے بوڑھے بھی تھے جوان بھی تھے بہت سینکڑوں کے قریب میتیں تھیں اور میں حیران ہوا یہ کن کی میتیں ہیں ان کو کس نے مارا ہے؟ اور یہ کتنے عرصہ پہلے سے مری ہیں ایک میت کے قریب میں نے دیکھا کہ ایک تختی پڑی تھی اور اس پر کچھ لکھا ہوا تھا عبرانی زبان تھی یا وہ سریانی زبان تھی لیکن تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا اس کے ساتھ ایسے محسوس ہوا کہ ساتھ ترجمہ لکھا ہوا ہے اور وہ اردو میں لکھا ہوا محسوس ہے اور اس تختی مین ایسے لکھا تھا جسے میں باآسانی پڑھ سکتا ہوں پھر میں نے پڑھنا شروع کیا لکھا ہوا تھا ہم آج سے پونے چار ہزار سال پہلے اس دنیا میں تھے ہم ایک شاہی خاندان کے سارے فرد ہیں۔ ہمارے درمیان میں جو بڑا صندوق اور جس کے اوپر سارا سونا ہی سونا ہے اور ہیرے ہیرے ہی ہیرے ہیں وہ ہمارا بادشاہ ہے اے وہ شخص! جو تو ہمارے اس مقبرے میں داخل ہوا ہے اس کے بارے میں ہمیں پہلے بتایا جاچکا تھا تو ا ن لوگوں میں سے ہے جو لوگوں میں خیر پھیلانے والے ہیں‘ آسانی پھیلانے والے ہیں یہ آج سے ہزاروں سال پہلے ہمیں بتایا جاچکا تھا اور ہمیں یہ بھی بتایا جاچکا تھا کہ یہ ایک شخص آئے گا جو تمہارے درمیان ہوگا اور تمہارے لیے دعائے مغفرت کرے گا۔ ہم ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ایک نبی کی اطاعت کی تھی اور ہم ایک نبی کے ماننے والے ہیں اور ہم اس نبی کے چاہنے والے ہیں ہمارے پر اکٹھی موت آئی یہ موت عذاب کی نہیں تھی قضا کی تھی اور ہمیں ہمارے خدام نے اکٹھا ایک مقبرہ بنا کر اس میں رکھ کر اللہ نے اپنی امر سے ہمیں محفوظ رکھا۔ ہماری جسمکو گلنے سے بچایا ہمارے اردگرد اس مقبرے میں سارا سونا چاندی عقیق زمرد، مرجان جواہرات اور موتی مدفن ہیں آپ چاہیں تو یہ لے لیں آپ کو ہماری طرف سے ہدیہ ہیں اور نہ چاہیں تو پھرمجھ سے بائیں طرف میت کا تابوت پڑا ہے اس کے ساتھ ایک تختی اس تختی میں آپ کو موتی جواہرات چاہیں تو وہ موتی لے لیں چاہیں تو وہ تختی اور موتی لے لیں میں حیرت سے اس تختی کو پڑھ رہا تھا میں نے اس بندے کو دیکھا اس پر سکوت تھا اسے موت تھی ہر طرف ہو کا عالم تھا میں اس ہو کے عالم میں گزرتا گیا اس دائیں طرف کےتابوت کے پر پہنچا تو میں نے تابوت کے ایک تختی پڑی پتھر کی بنی ہوئی تھی اور خوبصورت بنی ہوئی تھی اس پر بھی ایک نامعلوم تحریر لکھی تھی لیکن چند ہی لمحے کے بعد میں نےمحسوس کیا اس کا ترجمہ ایسے سنہری حروف ابھر آیا جیسے ترجمہ کیا جاتا ہے اور میں نے اردو میں پڑھا اے مرد صالح! تجھے ہم خوش آمدید کہتے ہیں اور تیرا آنا مبارک ہو‘ تیرے بارے میں ہمیں پہلے اطلاع تھی تو ہمارے پاس آئے گا اور تیرے ذریعے سے انسانیت کو نفع ہو اور انسانیت کو خوشیاں ملیں گے انسانیت کے غم انسانیت کی نڈھیالیاں انسانیت کی پریشانیاں اور عالم کے دکھ ختم ہوں گے۔ اے وہ شخص! تو ہمارے مقبرے میں آنا تیرا آنا مبارک ہو۔ تیرے آنے کی وجہ سے ہم تمام قبروں پر اور تابوتوں پر راحت اور رونق اور فرحت ملی ہے تو ہمیں اگر چند بار کلمہ پڑھ کر دے دے تیرا احسان ہوگا۔ ایک تحفہ ہم تجھے دے رہے ہیں اور وہ موتی ہے ان میں سے تیرا انتخاب ہے۔ایک وہ ہے جو موتی جواہرات سب بکھرے ہوئے ہیں یہ سب تیرے ہیں۔ ایک وہ ہے کہ جو اس تخت پر ہے۔ قارئین! اس تختی کو ایک لفظ لکھا ہوا تھا میں نے وہ لفظ پڑھا اور میں حیران ہوا میں اس لفظ کو پڑھ کر حیران ہوا کہ وہ لفظ کیا تھا‘ اس لفظ کی طاقت کیا تھی‘ اس لفظ کی تاثیر کیا تھا میں نے اس لفظ کو پڑھا میں حیران ہوگیا میرے پڑھتے ہی وہ لفظ آہستہ آہستہ مٹنا شروع ہوا اور وہ لفظ تختی سے مٹ گیا مگر میرے دل کی تختی پر ایک پل میں کندہ ہوگیا اور میں ایسے ہی یاد کرگیا اور اس لفظ کے بعد اس تختی پر کچھ اور سنہری حروف پر لفظ اترے پہلے نامعلوم زبان میں پھر اردو کے ساتھ محسوس ہونا شروع ہوا اور وہ لفظ تھے اس لفظ کو پڑھنے والا کبھی نامراد نہ ہوگا اس لفظ کو پڑھنے والا کبھی دنیامیں ناکام نہیں ہوتا اس لفظ کو پڑھنے والا کبھی دنیا کے طوفان میں ڈوبتا نہیں اس کو دنیا والے کوئی تکلیف دے نہیں سکتے۔دشمن اس کو کبھی تکلیف دے نہیں سکتے اور دشمن کے دشمن بھی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ اس لفظ کو پڑھتے ہی میں حیران ہوگیا۔ میں واپس پلٹا بس مجھے ایک موتی مل چکا تھا مجھے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں حالانکہ اس حال کے اندر اور بھی بہت کمرے تھے اور میں نے دور سے دیکھا سب کمروں میں جنگی سازو سامان کہیں بستر‘ کہیں موتی‘ کہیں جواہر کہیں بڑے بڑے جواہرات اور کہیں بڑے بڑے فانوس اور کہیں سونے کی چیزیں تلواریں تیر سب کچھ پڑا اور مجھے ایک لفظ مل گیا سب سے بہتر موتی لے کر واپس پلٹا سیڑھیاں سے مجھے روشنی نظر آرہی تھی میں سیڑھیوں سے چڑھا واپس آتے ہوئے ایک ہلکا سا شور ہوا دروازہ کھلا اس پر واپس ریت آگئی اور وہ ٹیلا بن گیا ایسے جیسے اس سے پہلے دروازہ ہی نہ تھا میں اس ویران جنگل میں واپس چلا آرہا تھا درندے مجھے دیکھ رہے تھے لیکن ان کے دل میں میرے لیے نفرت نہیں تھی مجھے چیڑنے پھاڑنے کا ان کے اندر جذبہ نہیں تھا اور جب میں گھر پہنچا اسی لمحے میری آنکھ کھلی۔‘‘ میں‘فوقانی ثانی اور گزشتہ رمضان: میں حیران ہوا میرا جسم بہت فریش اور ہلکا پھلکا تھا میں بہت مطمئن تھا اور میں اپنے آپ کو زندگی کا ایک خوشگوار لمحہ پانے کا اعزاز سمجھ رہا تھا اور میرے اندر بہت ہی زیادہ میں نےاس لفظ کو پڑھنا شروع کیا اور پڑھتے ہی میرے اندر واقعی اس کے کمالات آنا شروع ہوگئے میں کئی دن اس انوکھے عالم کے میں ڈوبا رہا۔ مجھے یہ لفظ بھی نہ بھولا یہ خواب بھی نہ بھولا لیکن وہ انوکھاعالم انوکھا جہان وہ انوکھی دنیا اس کو میں کیسے بھول سکتا ہے سب انوکھے جہاں اس انوکھی دنیا نے مجھے ایک نئی زندگی ایک نئی سوچ اور نیا انداز اور نئی طرز دی۔ میں اسی سوچ میں میں ایسی کیفیت میں تھا کہ اچانک کچھ ہی دنوں کے بعدفوقانی ثانی آیا یہ بات بتاتا چلوں اس رمضان میں میرے ساتھ فوقانی ثانی بہت رہا، ہر لمحہ ساتھ تھا وہ ایک سفید پوش غریب جن ہےلیکن بہت مخلص ہےپھر اس کے پاس معلومات بہت ہیں اور اس کے پاس واقعات اور مشاہدات بہت ہیں میں نے سفر میں اس کو غربت اس کی تنگدستی کی وجہ سے ساتھ رکھالیکن اس کے اندر جو چیز میں نے محسوس کی طمع غرض اور لالچ نہیں تھی اس کے اندراطمینان ہے جو مل چکا ہے بہت ہے جو پالیا ہے۔ وہ بہت ہے ایک شام مجھ سےکہنے فوقانی ثانی کہ علامہ صاحب آپ کو میں ایک شخص ملوانا چاہتا ہوں‘ وہ شخص وہ ہے جو انسان ہے لیکن بے شمار جنات کا اس سے بہت تعلق ہے اور بے شمار جنات اس نے قابو نہیں کیے جنات خود اس کے دوست ہیں جس طرح جنات آپ کے دوست ہیں اسی طرح جنات اس کے بھی دوست ہیں۔ مجھے اچھا لگا ۔اس وقت کے لمحات‘ زندگی کی ذمہ دریاں مجھے نکلنے پر مجبور نہ کررہی تھیں لیکن ادھر فوقانی ثانی کا اصرار بڑھ رہا تھا میں اس کے اصرار کو سنتے سنتے آخرکار ایک رات ہم نکلے۔جنات کے دوست سے ملاقات: میں نے حاجی صاحب کو سواری کا عرض کیا کیونکہ وہ صاحب جن کے تابع جنات تھے وہ دور کسی شہر میں رہتے تھے۔سواری میں نے منگوائی جب سواری آئی تو ہم سواری میں بیٹھے میں نے اپنے ساتھ کچھ میرے ساتھ تعلق رکھنے والے غریب انسان ہیں ان کا میں نے حصار کیا وہ تین لوگ تھے ان کا حصار کرکے میں چیل نما سواری میں بٹھایا تاکہ وہ خوف زدہ نہ ہوں ڈرے نہ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں