Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

جنات کا پیدائشی دوست Part5

ماہنامہ عبقری - اگست 2016ء

تین انسانوں کا میرے ساتھ سفر: یہ پہلی دفعہ ہوا کہ میں ان تین انسانوں کو اپنے ساتھ میں نے اس چیل نما اور گدھ نما سواری میں بیٹھنے کا موقع دیا۔ میرے اس کالم کے پڑھنے کے بعد شایدبے شمار لوگ مجھے سےاصرار کریں کہ کبھی ہمیں بھی اس جناتی سفر میں ساتھ لے کر جائیں لیکن لوگوں کے حوصلے بہت تھوڑے ہیں اس لیے میں نے مناسب نہیں سمجھتا۔ سالہا سال سے یہ تین حضرات کیونکہ میرے قریب ہیں اس لیے میں ان تین حضرات کو میں ساتھ لے کر چلتا ہوں۔ ان کا میں نے حصار کرلیا تھا ان کو گدھ نما سواری میں بٹھایا اور ہم نے سفر کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم کوئٹہ سے دور خشک پہاڑوں کے دامن میں ایک چھوٹی سی بستی میں پہنچے اور وہاں اس انسان کے سامنے بیٹھے تھے۔ میں نے کچھ ہدیے اور تحائف بھی لیے وہ ایک گاؤں کا رہنے والا اورڈیوڑی زبان بولنے والا ایک شخص تھا۔ جو واقعی ایک نیک اور صالح فرد تھا۔ وہ ان پڑھ شخص تھا پڑھا ہوا نہیں تھا۔ لیکن اس کی زندگی میں میں نے خلوص سچائی اور وفا دیکھی اور اس کی زندگی میں میں نے سچا انداز دیکھا میں جب اس کے سامنے بیٹھا تو اس نے بڑھ کر میرا استقبال کیا۔ بہت پیار سے میرا اور بہت محبت سے ملا۔ اس کے ملنے کا انداز بتارہا تھا کہ اس میں روحانیت بھی ہے‘ اس میں نورانیت بھی ہے اور اس میں سچائی بھی ہے میں اس سے باتیں کرنے لگا ۔ باتوں ہی باتوں میں اس سے پوچھافوقانی ثانی نے آپ کا تذکرہ کیا۔ فوقانی ثانی کا اس سے بھی تعلق تھا۔ سنا ہے کہ آپ کے دوست جنات بہت ہیں مجھ سے کہنے لگے وہ شخص جو زبان بولتا تھا کچھ کچھ اردو میں مجھ سےبات کرکے کہنے لگا کہ آپ سے زیادہ جنات تو میرے پاس نہیں ہیں میرے پاس تو صرف گیارہ جنات ہیں آپ کے پاس تو لاکھوں سے زیادہ جنات ہیں اور میں نے کہا پھر بھی ہے تو سہی۔ یہ جنات خودبخود میرے دوست بنے:میں نے اس سے کہا آپ ان گیارہ جنات سے کیا کام لیتےہیں اور یہ گیارہ جنات آپ نے کیسے قابو کیے کہنے لگے میں نے قابو نہیں کیے اور یہ خودبخود میرے دوست بنے اور یہ میرے ایک عمل کی وجہ سے بنے میں نے عمل پوچھا عمل تو بتائیں۔تو کہا میری تین بیویاں ہیں میرے والد کی بھی دو بیویاں تھیں میرے والد دوسری شادی کے کچھ ہی سال کے بعد فوت ہوگئے۔ میں نے احترام اور عقیدت سے اپنی دونوں حقیقی والدہ اور سوتیلی والدہ دونوں والداؤں کیلئے علیحدہ ساتھ ہی گھر( جھونپڑی نما گھر جس کو وہ گھر کہہ رہا تھا) اس کا انتظام کیا۔ اپنی بیویاں میری ساتھ تھیں میں ایک مزدور آدمی ہوں دن رات مزدوری کی پہلے دونوں والداؤں کو دیتا تھا جوبچتا تھا اپنی بیویوں کو دیتا تھا میری بیویاں صابر شاکر ایک درمیانی بیوی نے کچھ عرصہ میرے ساتھ برا سلوک کیا لیکن میں نے اس پر اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کیا‘ پیار سے سمجھاتا بھی رہا اور اس کے حق میں دعا بھی کرتا رہا۔ کچھ عرصہ کے بعد اس کو بھی صبر آگیا اور اس نے بھی احتجاج کرنا بند کردیا۔ پھر میں دونوں والدہ اور بیوی کی خدمت بھی کرتا رہا میں ان کو رزق حلال کما کر کھلاتا رہا‘ میں یہاں ایک پتھر کی ایک کان ہے اس کان میں میں کھدائی کرنے جاتا ہوں اور اس میں سے جو مجھے مزدوری ملتی ہے میں اس میں دیتا ہوں۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ کان میں کھدائی کرتے ہوئے ایک قیمتی ٹکڑا مل گیا ہے ‘ جو دنیا کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔مجھے چونکہ سالہا سال سے کان کنی کا شعبہ اور اس کی پہچان ہے اور میں سمجھ گیا کہ اگر میں یہ ٹکڑا اپنے پاس رکھ لوں تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور میں گھر بیٹھےبٹھائے کروڑ پتی بن جاؤں گا۔ پھرخیال آیا کہ نہیں میں یہ اس کان کے مالک کو بتاؤں گا۔ میں نے اس ٹکڑے کو اپنے پاس رکھ لیا اور شام کو جاکر اس کان کے مالک کو دے دیا۔
اور وہ کوئی سو کانوں میں سے خوش قسمت کان ہوتی ہے جس میں سے اس طرح کا کوئی ٹکڑا نکلتا ہے اور وہ ایک ٹکڑا کروڑوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ اس کان کے مالک نے دیکھا‘ ایک دم اچھل پڑا اور حیران ہوا اور اٹھ کر کھڑا ہوکر میرا ماتھا چومنے لگا حالانکہ میں گرد آلود تھا اسے کوئی ہوش نہ رہا اور مجھے کہنے لگا واقعی یہ تو نے مجھے دیا ہے تم نے کیوں نہیں چھپایا۔ میں نے کہا میرا حق نہیں تھا میرا کام کسی کی مزدوری تھا مجھے میری مزدوری ملتی تھی اس نے مجھے زیادہ دینے کی کوشش کی دل سے اصرار کیا لیکن میں نے نہیں لیا اور میں اس کے پاس مزدوری کرتا رہا کرتا رہا۔ ایک دفعہ میں آرہا تھا تو راستے میں ایک بزرگ بوڑھا ملا جس بوڑھے نے مجھے آواز دی کہ بیٹا میرا یہ سامان ہےاگر تو بھی فلاں جگہ جارہا میں بھی اسی جگہ جارہا اٹھا دے تو تیرا بھلا ہوگا۔ اس کے پاس گٹھڑی تھی۔ اس نے وہ گٹھڑی ساتھ رکھی ہوئی تھی ہانپ رہا تھا جیسے کہ وہ کسی پہاڑ سے اتر کر آیا اور گٹھڑی اٹھا کر تھک گیا ہو تو میں نے کہا ٹھیک ہے میں بھی وہاں جارہا میں آپ کی یہ گٹھڑی آپ تک ضرور پہنچاؤں گا اور آپ کا ساتھ دوں گا۔ اس ہانپتے جسم اور بوڑھے کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے مجھے ترس آیا‘میں نے وہ گٹھڑی اٹھائی وہ بہت بھاری تھی میں نے اپنی ساری قوتیں جمع کرکے اس گٹھڑی کو اپنے کندھے پر رکھا جب چند ہی قدم چلا تو گٹھڑی کا وزن مزید بڑھ گیا۔ ایک طرف وہ بوڑھا ہانپ رہا تھا اور مسلسل میری منتیں کررہا تھا ۔ بیٹامیری گٹھڑی پہنچا دے، میری گٹھڑی کو پہنچا دے گٹھڑی کا وزن بڑھ رہا تھا میری کمر دوڑی ہورہی تھی میں نے ہمت کی اور میں چلتا گیا چلتا گیا پھر میں نے محسوس کیا کہ اب اور ہمت نہیں اور میری کمر ٹوٹ جائے گی اور میرا جسم مفلوج ہوجائے گا لیکن میں اپنی قوتوں کو مسلسل جمع کررہا تھا نامعلوم اس گٹھڑی میں پتھر تھا‘ لوہا تھا کیا تھا لیکن اس کا وزن پتھرسے بھی زیادہ تھی اور لوہے سے بھی زیادہ تھا مین اپنے گھر کے قریب پہنچاآخر بوڑھے کہا بس بیٹا یہی رکھ دو میں نے گھٹڑی اتاری تھوڑی دیر مجھے خبر نہ رہی اور میں بے سد ہوگیا اور بے سد ہوکر حتیٰ کہ میں گرگیا اور گرنے کے بعد جب میں اٹھا تو نہ وہ بوڑھا تھا نہ وہ گٹھڑی تھی کچھ بھی نہ تھا میں حیران ہوا کہ میرے ساتھ کیا ہوا میں گھر پہنچا تو گھر جاکر میں نے گرم گرم دودھ پیا اور میری کچھ قوتیں بحال ہوئیں۔ کئی ہفتوں تک میں کمزوری اور نڈھالی میں مبتلا رہا حتیٰ کہ میں پورا ہفتہ میں اپنی مزدوری پر بھی نہ جاسکا اور میرے گھر میں فاقے شروع ہوگئے۔ میں انہی کیفیتوں کے ساتھ کہ پتہ نہیں وہ کون تھا؟ اور کیا تھا؟ چند ہی ہفتوں کے بعد میرے ساتھ انہونے واقعہ ہونا شروع ہوگئے مثلاً اگر میں گھر سے نکلتا اور مجھے غنودگی سی ہوتی اور میں محسوس کرتا کان کے دہانے پر ہوتا کس نے پہنچایا کیسے آیا مجھے خبر نہیں پھر ایک اور واقعہ شروع ہوئے کہ میں پتھروں کو توڑنے کی کوشش کرتا اور تھوڑی سی محنت پر میں زیادہ توڑ لیتا جبکہ میرے ساتھ والے جنتی محنت کرتے اتنا توڑتے تھے۔ وہ حیران ہوتے کہ تجھے کیا ہوگیا پہلے بھی تو ہماری طرح تھا اب تیرے اندر یہ ترقی کیسے ہوگئی؟ میں سوچتا رہا کہ یہ کیا ہوا؟ آخر میرے کام خودبخود ہونا شروع ہوگئے اور میرے گھر میں رزق کی برکت ہونا شروع ہوگئی حتیٰ کہ میرے کچھ جانور تھے ان کا گھاس کٹا ہوا ان کے سامنے پڑا ہوتا تھا اور جو جنگل سےکاٹ کر لاتا تھا مجھے علم نہیں ۔ والدہ ‘ بیویوں کی خدمت ‘ ایمانداری کا اجر: میں نے ایک دفعہ رات کو سوتے سوتے اللہ سے باتیں کرنے لگا یااللہ یہ راز میرے اوپر کھول دے یہ کون لوگ ہیں؟ جن کا مجھے علم نہیں لیکن تیرے علم میں یہ کون لوگ ہیں جنہوں مجھےآج تک دیکھا نہیں اور میں انہیں نہیں دیکھ سکتا‘ یااللہ! تیری مدد فرشتوں کی ہے جنات کی ہے یا غیبی مدد ہے مجھے پتہ نہیں میری ایسی کون سی نیکی ہے اس کے بارے میں بھی بتادے‘ میں رات کو دعا مانگتے مانگتے سو گیا‘ میں نے خواب دیکھا‘ اس میں گیارہ لوگ ہیں جو کہہ رہے ہیں تیری والداؤں کی خدمت اور بیویوں کے ساتھ خدمت اور تینوں کے ساتھ انصاف اللہ کو بہت پسند آیا ہے پھر تو نے وہ خیانت نہیں کی اور وہ قیمتی حصہ کان کا تو نے مالک کو پہنچایا۔ اللہ کو یہ ادا اور پسند آئی اللہ نے ہم نیک جنات کی ذمہ داری لگائی ہے ہم تیری خدمت کریں اور ہم تیرے دوست بنیں۔ تیرا ساتھ دیں بس ہم نے کہا ہم تجھے کرنے سے پہلے آزمائیں گے اور ایک مشقت لائیں گے اور پھر جو بوڑھا بول رہا تھا میں انسانی بولی کی شکل میں فلاں دن تیرے سامنے آیا تھا اور میں نے بہت بھاری پتھر جمع کیے ہوئے تھے۔ دنیا کے وزن کے اعتبار سے بھاری اور حجم کے اعتبار سے تھوڑے تھے گٹھڑی باندھی ہوئی تھی اگر اس دن تو گٹھڑی پھینک دیتا اور تو میری بات نہ مانتا تو ہم تجھ سےدور ہوجاتے اور یہ اللہ نے شرط رکھی تھی۔ لہٰذا تو نے صبر کیا اور خدمت کو نہ چھوڑا آج ہم تیرے دوست ہیں تیرا ساتھ دیںگے‘ تجھ سے پیار ہے‘ تجھ سے محبت اور تیرے ساتھ انصاف کریں اور ہم تیرا کام کریں اور تو نہیں بھی چاہے گا تومسلسل تیرا کام ہم کرتے رہیں گے اور تیری خدمت ہم کرتے رہیں گے۔ میں حیرت سے اس کی بات سن رہا تھا اس ڈیوڑی زبان بولنے والے گاؤں کےرہنے والے کی اور فوقانی ثانی بھی یہ بات سن رہا تھا اور مجھے ایک بات کی حیرت ہوئی کہ اس کی اس بات کے اندر کتنا وزن ہے‘ کتنی سچائی ہے اور واقعی سچائی تھی اورواقعی وزن تھا اور وہ اپنی باتیں کیے جارہا تھا اور میں اس کی باتیں سنے جارہا تھا۔بکریوں کے دودھ میں لاجواب لذت: اسی دوران بکریوں کا دودھ لائے ‘ہم نے بکریوں کا دودھ پیا ‘اس دودھ میں لذت بھی بہت لاجواب تھی مجھے احساس ہوا بکری کا دودھ تو پہلے بھی پیا لیکن اس دودھ کی لذت دراصل اس لیے ہے کہ اس میں رزق حلال ہے‘ اس میں طیب طاہر رزق ہے‘ اس میں رزق ایسا نہیں جس میں خیانت ہو اور اس میں امانت نہ ہو۔ میں یہی سوچ ہی رہا تھا کہ ان کی طرف سے مجھے ایک آواز سنائی دی فرمانے لگے آپ تشریف لائے ہیں‘ ہم غریب لوگ ہیں یہ ہمارے علاقے کا کڑاہی کیا ہوا تکیہ ہے چھوٹا سا اس کو استعمال کریں میں نے لے لیا چوما آنکھوں سے لگایا کیونکہ اس میں خلوص سچائی تھی وہ لےکر میں نے ان سے اجازت واپسی چاہی۔ واپسی کی اجازت چاہتے ہوئے میں نے ان سے پوچھا آپ کا کوئی خاص ورد‘ آپ کا کوئی خاص وظیفہ جو آپ پڑھتے ہوئے فرمانے لگے بس میں نے جو کچھ پایا ہے درود پاک سے پایا ہے جو کچھ پایا ہے ماں باپ اور بیویوں کی خدمت اور ان کے درمیان انصاف سے پایا ہے اور جو کچھ پایا ہے میں نے رزق حلال اور امانت داری سے پایا ہے۔ میں ان کی نصیحتیں سن کر بہت حیران ہوا ہم نے واپسی کا ارادہ کیا۔ اس سے واپس ہوکر ہم کچھ دیر پیدل چلے پھرسواری کی طرف بڑھے وہ گدھ نما سواری ہمارا انتظار کررہی تھی یہ سارا منظر اور یہ ساری باتیں میری ساتھ جو تین انسان تھے وہ بھی دیکھ رہے وہ بھی حیرت میں مبتلا تھا لیکن میں نے ان سے ایک وعدہ لیا کہ کبھی اس کا تذکرہ کسی سے نہ کریں بس موت تک بھی اس کا تذکرہ نہ کریں کہ آپ کبھی علامہ صاحب کے ساتھ اس طرح گدھ نما سواری میں سوار ہوئے اور پھر کوئٹہ کے آگے ایک گاؤں میں پہاڑوں کے درمیان ہم گئے اور اس شخص کی داستان سنی اور اس شخص کے کمالات دیکھے۔ وہ شخص جس کے جنات دوست تھے‘ جنات اس کی مدد کرتے تھے اور جنات اس کے کام کرتے ہیں اور جنات اس کے خادم ہیں۔ ان لوگوں نے وعدہ کیا اور ابھی تک وہ اس وعدے پر قائم دائم ہیں اور انشاء اللہ زندگی تک وہ قائم دائم رہیں گے کیونکہ کائنات کےراز ہوتے ہیں اور بعض رازوں کا توڑ دینا بہت ہی زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ حسین و جمیل خوبصورت بیوہ کا قصہ:فوقانی ثانی جن جب واپس میرے گھر میرے ساتھ پہنچا میں نے اس سے پوچھا تیرے پاس اتنی معلومات کہاں سےآرہی اور اتنی معلومات کیسے رکھتا ہے تو اس نے کہا میرے پاس یہ معلومات میرا سب کچھ اس لیے ہے کہ میری طبیعت میں میں پھرتا رہتا ہوں پھرنے سے مزدوری بھی کرتا ہوں بچوں کیلئے رزق حلال بھی کماتا ہوں‘ کوئی چیز ادھر سےلی ادھر بیچ دی ادھر سے لی ادھر بیچ دی‘ اسی نفع کمالیا ۔بس اسی پھرنے سے میں اپنی زندگی کے دن رات گزارتا ہوں اور میں بہت زیادہ اس کو اپنے لیے بہترین سمجھتا ہوں۔ میں نے فوقانی ثانی جن کو کہا کوئی اور واقعہ کوئی اور تجربہ سنائیں جس کو زندگی میں بہترین پایا ہو کوئی اور واقعہ تجربہ سناؤ جس کو زندگی میں بہت انوکھا پایا ہوا۔ فوقانی جن میری طرف دیکھتا رہا‘ کچھ دیر دیکھتا رہا اور دیکھنے کے بعد اس نے نظریں پھیر لیں اور نظریں پھیرنے کے بعد وہ شخص بولا۔ اس نے کہا: ہاں میں نے ایک واقعہ سنا تاتھا اور واقعہ وہ واقعہ بھی انسانوں کا ہے جنات کا نہیں ہے۔ میں اپنے کاروبار میں ایک سفر کررہا تھا مجھے پتہ چلا کہ وہاں ایک چیز ہے جوا تنے داموں مل جائے اور میں فلاںجگہ اس کی مانگ ہے اور فلاں جگہ اس کولے جاکر اچھے داموں بیچ دوں گا اور میرا مہینہ اچھا گزر جائے گا میں وہاں گیا سفر کرتے ہوئے تو میں نے ایک بیوہ کو دیکھا جس کی شادی ایک کے چند سال بعد اس کا خاوند فوت ہوچکا تھا اور بہت حسین و جمیل خوبصورت ایک لڑکی تھی جس کے دو بچے تھے۔ ایک بچہ ڈیڑھ سال کا تھا اور ایک بچہ چند ماہ کا تھا۔ دیور کی بھابی پر بُری نظر اور حملے: لیکن اس کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ اس کا ایک چھوٹا دیور اس کو بہت زیادہ اپنے نظروں میں رکھے ہوئے تھا اور اس دیور نے کوشش کی تھی کہ کسی طرح اس کو اپنی زندگی میں سمولے، ایک طرف اس کے شوہر کی جدائی کا غم دوسری سسرال کا رویہ جو پہلے اس سے بہتر تھا اب رویہ اس سےناروا ہوگیا اسی کیفیت کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی کہ اس کے چھوٹے دیور نے اس پر حملے کرنا شروع کردئیے کبھی تنہائی میں ہوتی تو وہاں پہنچ جاتا اور چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کرتا وہ آنسو بہا کردبک جاتی اور بعض اوقات اپنے بچے کو سینے سے لگا لیتی۔ بیوہ کی شوہر کو پکار: اور پھر تنہائیوں میں بیٹھ کر روتی اور اپنے شوہر کو پکار پکار کر کہتی کہ محمود! محمود مجھے کہاں چھوڑ کر چلا گیا؟ محمود تو نے میری زندگی بسائی تھی تو نے مجھے حلال کی راہیں کی دکھائیں تھیں محمود!اب تیرا بھائی مجھے حرام کے راستوں کی طرف بلارہا ہے محمود آج آ مجھے آکر آنچل دے میری چادر حیا کی نوچنے کی کوشش کی جارہی ہے میری حیا کی چادر کوتو سنبھال لے۔ محمود! آجاؤ میں تیرے بغیر ادھوری ہوں‘ پھر آسمان کی طرف دیکھ کر کہتی مولا تیری تقدیر پرراضی ہوں‘ تقدیر پر راضی ہوں‘ محمود! اب نہیں آسکتا تومولا مجھے محمود کے پاس پہنچا دے لیکن میرے بچو ںکا کیا ہوگا میرے بچو کو کون سنبھالے گا مولا تو کچھ کردے۔فوقانی ثانی اور علامہ صاحب کے آنسو: فوقانی ثانی یہ باتیں کرتے ہوئے رو رہا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے تو مجھے بھی رونا آگیا واقعی اس کی باتیں ایسی تھیں اور میری آنسو بھی نہ رک سکے میں ان آنسوؤں کے ساتھ اس کی باتیں سن رہا تھا۔ فوقانی ثانی کہنے لگا کہ میں ایک دفعہ گزرا جارہا تھا تو اس بیوہ کو دیکھا۔ دل کی آوازیں سنی اور اس کی سسکیاں اوردل کی آوازوں سے مجھے محسوس ہوا کہ یہ بہت دکھی ہے اس کی مدد کرنی چاہیے۔علامہ صاحب مجھے آپ سے محبت ہے: فوقانی ثانی نے کہا کہ مجھے انسانوں اور جنات کی مدد کرکے دلی خوشی ہوتی ہے۔ مجھے ان کا ساتھ دے کر ایک دل کا سکون ملتا ہے۔ مجھے ان کے دکھ درد میں راہیں دکھا کر مجھے ایک احساس ہوتا ہے پھر میرا ہاتھ تھام کر کہنے لگا علامہ صاحب مجھے آپ سے محبت اس لیے کہ آپ دکھی انسانیت کیلئے بہت کچھ کررہے ہیں اور کرنا چاہتے ہیں آپ کے دل میں سچی تڑپ ہے مجھے آپ کی طرف کھینچ کر لاتی ہے۔اس لیے میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ ایک طرف میں نے اس کی جوانی دیکھی اور پھر نظام دیکھا دوسری اس کے تڑپتے آنسو دیکھے اور سسکتے زندگی دیکھ کر ایک پل میں بھینچ گیا اور مجھے احساس ہوا کہ مجھے اس کی مدد کرنی ہے مجھے اس کا ساتھ دینا ہے اور مجھے اس کے لیے دل و جان سے کچھ کرنا ہے میں سوچتا رہا کہ میں کیا کروں ایک جی میں آیا کہ اس کے دیور کو محبوس کردوں‘ تباہ کردوں‘ ساری زندگی کیلئے بستر پر پڑا رہا پھر میں نے کہا نہیں یہ ظلم ہوگا۔ پھر جی میں آیا کہ اس کو آنکھوں سےا ندھا کردوں پھر خیال آیا نہیں آنکھوں سے اندھا نہ کروں‘ یہ ساری زندگی مفلوج ہوجائے گا پھر جی میں آیا کہ اس کی ٹانگ توڑ دوں۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 003 reviews.