مولانا نے خوشی خوشی فون پر مجھ سے بات کرائی اور مجھ سے تعارف کرایا کہ یہ کیرل کے رہنے والے ممبئی میں فرسٹ کلاس آفیسر ایک بڑے سرکاری منصب پر فائز ہیں‘ آج ہم لوگ سمندر کے کنارے فیلڈورک کیلئے گئے‘ تو ان سے ملاقات ہوگئی بہت ہی قدر اور محبت سے بات سنی‘ کچھ اشکالات محبت سے کئے اور ان کا جواب سن کر مطمئن ہوئے‘ 23 منٹ کی گفتگو کے بعد اسلام قبول کیا‘ آپ ان کے ایمان کی تجدید کرادیں اور ان کا نام بھی تجویز فرمادیں اس حقیر نے سلام و کلام کے بعد کلمہ کی تجدید کرائی اور محمدسلمان نام رکھا معلوم کیا کہ فیملی میں اور کون کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ میرے دو بیٹے، اور ایک بیوی ہے‘ ہم سب ممبئی میں رہتے ہیں‘ دونوں بیٹے بھی ایک سرکاری اور پرائیویٹ کمپنی میں بڑے عہدہ پر ہیں اور اہلیہ بھی سرکاری ملازم ہیں‘ باقی خاندان کے سب لوگ جنوب میں رہتے ہیں اس حقیر نے حسب معمول اس خیال سے کہ یہ بھی کہیں خاندانی مسلمانوں کی طرح بس اپنے ایمان و اسلام پر قناعت نہ کرلیں‘ ان کو گھر والوں پر دعوت کا کام کرنے کی طرف متوجہ کرنے کیلئے ان سے عرض کیا کہ اس یقین کے ساتھ اگر آپ نے اسلام قبول کیا ہے کہ اسلام کے بغیر نجات اور مکتی نہیں تو یہ اسلام اللہ کے ہاں قبول ہے اور جب یہ بات بالکل سچی ہے اور اسی کا نام ایمان ہے کہ اسلام کے بغیر نجات نہیں تو پھر وہ بیوی جو سب کچھ چھوڑ کر صرف اور صرف آپ کیلئے زندگی گزار رہی ہے وہ بچے جن کے بخار سے آپ تڑپ جاتے ہیں وہ ماں باپ اور بھائی بہن جو ہمیشہ جان چھڑکتے ہیں وہ نرگ اور دوزخ میں جائیں اور ہم اپنے ایمان اور اسلام پر مطمئن رہیں تو ہم مسلمان تو کیا انسان بھی کہلانے کے حق دار نہیں‘ اس لیے اب آپ کو اپنی فیملی پرکام کرنا ہے‘ یہ بات سنتے ہی وہ گھبرا گئے اور بولے نہ صاحب نہ‘ ان کے سامنے تو ذکر بھی نہیں کرنا‘ میں اسلام کا نام بھی لوں گا تو وہ مجھے ایمان نہیں لانے دیں گے‘ وہ تو بہت کٹر ہندو ہیں‘ اس حقیر نے جیسے جیسے اصرار کیا وہ اتنا ہی ڈرتے رہے اور منع کرتے رہے‘ میں نے بہت خوشامد کرکے اس بات پر ان کو راضی کیا کہ کل اتوار کا دن ہے‘ آفس کی چھٹی ہے‘ وہ اپنی اہلیہ اور دونوں بچوں کو سمندر کے کنارے سیر کیلئے لائیں اور ان سے کہیں کہ یہاں پر کچھ سماج سیوی لوگ ورکشاپ کیلئے آئے ہیں اور مولانا خلیق ندوی صاحب سے چند منٹ ان کی ملاقات کرادیں وہ اگلے روز شام کو ان کو لے کر آئے‘ سمندر کے کنارے بیٹھ کر بات کی اورگیارہ منٹ بات کے بعد انہوں نے خوش دلی سے کلمہ پڑھنے کیلئے ہاں کردی‘ مولانا خلیق نے مجھے خوشی خوشی پھر فون ملایا کہ سر کی اہلیہ اور دونوں بیٹوں کو کلمہ پڑھوا دیجئے جن کو آپ نے کل کلمہ کی تجدید کرائی تھی اس حقیر نے ان تینوں کو فون پر کلمہ پڑھوایا‘ اور پھر سلمان صاحب سے بات کی اور کہا کہ آپ تو کہہ رہے تھے یہ بہت کٹرہندو ہیں‘ آپ نے تو 23 منٹ کی بات سننے کے بات کلمہ پڑھا‘ یہ تینوں صرف گیارہ منٹ میں کلمہ پڑھنے کیلئے تیار ہوگئے‘ میں نے عرض کیا کہ اس میں آپ کی غلطی نہیں بلکہ ختم نبوت کے بعد اس عظیم منصب پر فائز امت اپنے منصبی فریضہ سے دور ہوکر خود اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے اپنی ذلت اور ناکامی کا ٹھیکرا دوسروں کے سر پھوڑتی ہے اور اپنی ذمہ داری سے بچنے کا بہانہ بنانے کیلئے ساری انسانیت سے بدظن اور اس کی ہدایت سے مایوس ہوگئی ہے‘ اس لیے داعی تو خود دعوت کیلئے ماحول کو ناسازگار اور اپنے مدعو کو سخت ترین اسلام مخالف اور کٹر سمجھتا ہی ہے‘ ہمارے مدعو بھائیوں کے ذہن میں بھی اس طرح کا تصور پیدا ہوگیا ہے کہ سب اسلام دشمن ہیں‘ میں نے ان سے عرض کیا خدا کے لیے اب کسی عزیز رشتہ دار کو آپ تو کٹر نہ کہیں‘ انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا‘ یہ بات اصولی ہے کہ داعی کے مخلص ہونے سے بھی زیادہ یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے مدعو کو مخلص اور صرف اور صرف غافل سمجھے‘ اپنے مدعو کیلئے اگر جان بوجھ کر مخالف ہونے‘ سازشی ہونے‘ جاسوس ہونے یا کٹر ہونے کا شائبہ بھی ہم داعیوں میں سے کسی کے ذہن میں آئے گا تو دعوت کی راہ فوراً مسدود ہوجائے گی، اس لیے یہ اصول ہر داعی کے ذہن میں رہنا چاہیے کہ وہ اپنے مدعو کو مخلص سمجھے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں