بچے کی زندگی کے ابتدائی دو سال اس کی صحت اور تندرستی کے بنیادی ایام ہیں۔ ان ایام میں اگر اسے مناسب طریقہ سے دودھ پلایا جائے‘ اسے ورزش کرائی جائے‘ اسے غسل‘ نیند‘ سیر ‘ دھوپ وغیرہ تمام حوائج ضروریہ سے مناسب حصہ دیا جائے تو ایسا بچہ زندگی کی آئندہ کٹھن منزلوں کو بخیر و خوبی طے کرنے کے قابل بن جاتا ہے۔ پیدائش کے چھ گھنٹہ بعد سے بچہ کو ماں کا دودھ پلایا جائے۔ تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ دس منٹ کی مدت دودھ پلانے کیلئے کافی ہے اور ایک بار میں صرف ایک ہی چھاتی سے دودھ پلایا جائے۔ دوسرے موقع پر دوسری چھاتی سے‘ اسی طرح سے تبدیل کر کے دودھ پلانا مفید رہتا ہے۔ جب بچہ دودھ پی رہا ہو تو اسے جگائے رکھنا ضروری ہے۔ جن عورتوں کو دودھ زیادہ آتا ہے لیکن بچہ دودھ نہیں پیتا تو دودھ بستہ ہو کر چھاتیوں میں گٹھلیاں بن جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ چھاتیوں میں بچے کیلئے کافی دودھ نہ اتر ے تو دودھ پلانے سے آدھ گھنٹہ پہلے ماں آدھ سیر سے زیادہ دود ھ پی کر لیٹ جائے۔ اس سے اس کے دودھ میں اضافہ ہو جائے گا۔ اگر ماں صبح و شام ہوا خوری کرے‘ مقوی غذا کھائے۔ دودھ ‘ گھی‘ پھل‘ ترکاری وغیرہ زود ہضم چیزیں کھائے تو اس سے کافی دودھ ہو جائے گا جس سے اس کا ننھا بہ آسانی پل سکتا ہے۔ آج کل عورتوں میں ایک غلط خیال کی اشاعت ہو رہی ہے کہ دودھ پلانے سے عورت کے حسن و جمال میں کمی واقع ہو جاتی ہے ‘ لہٰذا کئی عورتیں بچوں کو اپنا دودھ پلانا باعث عار خیال کرنے لگی ہیں۔
ڈاکٹر اپلسن لکھتے ہیں:
”امریکا کے علاوہ نیو انگلینڈکے ننھے بچوں والی ماﺅں میں سے صرف آدھی تعداد ایسی عورتوں کی ہے جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں۔ “ ڈاکٹر سکروڈر کو شاید اسی لئے کہنا پڑا ہے کہ” ماﺅں پر اس امر کی قانونی پابندی ہونی چاہیے کہ وہ کم از کم نو ماہ تک اپنے بچے کو ضرور اپنا دودھ پلائیں۔“ ڈاکٹر ہیلو لاک ایلس لکھتے ہیں ” فرانس کے جن علاقوں میں بچے ماﺅں کے دودھ سے محروم رہتے ہیں‘ وہاں سے فوجی ملازمت کیلئے اچھے گرانڈیل جوان نہیں ملتے۔“ ڈاکٹر گلڈر لکھتے ہیں ” مصنوعی طریقوں سے دودھ پینے والے بچے اپنی عمر کے پہلے سال میں ماں کا قدرتی دودھ پینے والوں کی نسبت دگنی تعداد میں مر جاتے ہیں۔“
چھاتیوں سے قدرت کی چونکہ منشا یہی ہے کہ ماں بچے کو دودھ پلائے‘ ا س لئے اگر وہ دانستہ اس فرض کی ادائیگی سے گریز کرتی ہیں تو وہ ایک نامناسب فعل کی مرتکب ہوتی ہے جس کی سزا اسے خود بھی بھگتنی پڑتی ہے۔ ڈاکٹر وں نے پتہ لگایا ہے کہ حالت حمل میں جو تغیرات عورت کے رحم وغیرہ میں رونما ہوتے ہیں‘ ان کو درست کرنے اور اصلی حالت پر واپس لانے کیلئے خود ماں کا بچے کو دودھ پلانا ایک بے نظیر علاج ہے۔ اس قدرتی علاج کے ذریعہ رحم اور دیگر ساختیں بہت ہی جلد سکڑ کر اپنی اصلی حالت پر واپس آ جاتی ہیں اور یہ اعضاءاس فرض کی ادائیگی کے باعث نہایت ہی راحت و سکون میں رہتے ہیں۔ ان میں اجتماع خون نہیں ہوتا اور ماہواری ایام رکے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس جو عورتیں بلا وجہ دودھ پلانا ترک کر دیتی ہیں‘ عرصہ دراز تک ان کا رحم اور دیگر ساختیں مختلف رطوبات کا مرکز بنی رہتی ہیں۔ معمولی سبب بھی ایسی عورتوں کے رحم میں سیلان بیض اور سیلان صدیدی جیسے امراض پیدا کر دیتے ہیں۔ مختلف ممالک کے اعداد و شمار سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اچھی صحت کے باوجود دودھ نہ پلانے والی عورتوں میں امراض زیادہ رونما ہوتے ہیں۔
دودھ کے علاوہ بچہ کو وقفہ کے وقت میں تھوڑا پانی بھی پلانا چاہیے۔ ایسا پانی جوش دے کر کسی سرد صراحی میں رکھیں۔ ضرورت پر اس میں سے نکال کر بچہ کو پلایا جائے۔ اگر کسی وجہ سے بچہ ماں کا دودھ نہ پی سکے تو بچہ کو تندرست گائے کے دودھ سے پرورش کیا جائے‘ تین حصے پانی اور ایک حصہ دودھ ملا کر چولہے پر گرم کریں جب تین ابال آ جائیں تو اتار لیں ۔ ٹھنڈا کر کے حسب ضرورت چینی ملا کر پلائیں ۔ یہ دودھ ماں کے قدرتی دودھ کے برابر گرم ہو۔ اس کے بعد بچہ کو چمچ سے خوراک دینی چاہیے۔ کمشنر آف ہیلتھ مشی گن (امریکا) کی رائے میں جس بچہ کی عمر پانچ مہینے کی ہو اور وزن پانچ سیر سے کم نہ ہو ‘ اسے گائے کا دودھ بھی دینا چاہیے۔ دودھ کے علاوہ پانچ چھ ماہ کے بچے کو سبزیوں کا شوربہ دیا جا سکتا ہے جس میں نمک کم ہو اور مرچ بالکل نہ ڈالی جائے۔ نو‘ دس ماہ کے بچے کو آلو کا چھوٹا سا ابلا ہوا ٹکڑا بھی دیا جا سکتا ہے۔
ایک غلطی سے بچنا ہر سمجھ دار ماں کا فرض ہے۔ وہ یہ ہے کہ جونہی بچہ رویا‘ ماں نے اسے دودھ پلانا شروع کر دیا۔ اس غلطی سے بچہ کی عادت بگڑ جاتی ہے۔ بچہ کو جب تک وہ دس پونڈ (5 سیر) کا نہ ہو جائے ‘ ہر تین گھنٹے بعد دودھ پلانا چاہیے۔ اس سے وہ تندرست رہتا ہے اور متعدی امراض اور صفراوی اسہال وغیرہ کے حملوں سے محفوظ رہتا ہے۔ سردیوں کے موسم میں ننھے بچوں کو بھی دھوپ کا غسل (Sun Bath) دینا مفید ہوتا ہے۔ بچوں کو گاڑی یا جھولے میں لٹا کر ایسی جگہ رکھنا چاہیے جہاں اس پر ہلکی ہلکی دھوپ پڑتی رہے‘ مگر اس کی آنکھوں پر براہ راست سورج کی شعاعیں اثر نہ ڈالتی ہوں۔ بچے کو اتنی دیر دھوپ میں لٹائے رکھیں جس سے بچہ تکلیف محسوس نہ کرنے لگے۔
بچوں کو اگر دن میں دو تین بار پاخانہ آئے تو یہ صحت کی نشانی ہے ‘ بچوں کا پاخانہ عام طور پر زردی مائل‘ چمک دار قدرے پتلا ہوتا ہے۔ سمجھ دار مائیں بچوں کو مقررہ وقت پر پیشاب پاخانہ کی عادت ڈال لیتی ہیں۔ اس لئے جس طرح سے بچوں کو دودھ پلانے میں باقاعدگی کی ضرورت ہے‘ اسی طرح سے انہیں پاخانہ کی باقاعدگی کی بھی حاجت ہے۔
جب بچہ کا وزن آٹھ پونڈ ہو جائے تو اس وقت سے اس کی ورزش کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے۔ شام کے 5‘ 6 بجے کے قریب بچہ کو ایسے کمرے میں لٹا دیں جو نہ زیادہ گرم ہو اور نہ زیادہ سرد۔ اس کے کپڑے اتار دیں اور آہستہ آہستہ اس کے جسم پر تیل کی مالش کریں۔ کبھی پیٹھ کے بل لٹا کر اور کبھی پیٹ کے بل۔ پھر اسے موسم کے مطابق ستھرے کپڑے پہنائیں۔ اس وقت بچہ دودھ پی کر گہری نیند سو جاتا ہے۔ بچہ اکثر پالنے پر پڑا پڑا ٹانگیں چلاتا اور باز و اچھالتا رہتا ہے۔ کبھی دائیں بائیں گھوم جاتا ہے۔ یہ اس ننھی سی جان کیلئے قدرتی کسرت اور ورزش ہے۔ اسے اس سے مت روکو۔ جب تک کہ وہ آپ نہ ہٹ جائے۔ اس کسرت سے اس کے بازو‘ ٹانگیں اور جسم کے دیگر اعضاءتوانائی اور طاقت حاصل کرتے ہیں۔ نوزائیدہ بچہ کو دودھ پلانے‘ غسل دینے اور پنگھوڑا میں لیٹ کر تھوڑی ورزش کرنے کے اوقات کے علاوہ بھی جی بھر کر سونے کی عادت ڈالنی چاہیے ۔ ابتداءمیں اگر بچہ چوبیس گھنٹوں میں سے بائیس گھنٹے بھی سویا رہے تو مضائقہ نہیں۔ چھ ماہ کے بچے کے لئے بیس گھنٹے کی نیند ضروری ہے۔ ایک سال کی عمر کے بچے کو سولہ گھنٹے سونا چاہیے۔ ایک سال سے لے کر دو سال کے بچے کو رات بارہ گھنٹوںکی نیند کے علاوہ دن میں بھی دو چار گھنٹے سونا مفید ہے۔ ننھے بچے روتے ہیں تو ان کے پھیپھڑوں کی کافی ورزش ہو جاتی ہے اس لئے اگر بچہ دن کے وقت کچھ دیر روئے تو یہ اس کی تندرستی کی علامت سمجھنا چاہیے۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 147
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں