ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں
سوال: میں فرسٹ ایئر کا طالب علم ہوں، مستقبل میں ڈاکٹر بننے کا ارادہ رکھتا ہوں، اس کیلئے جتنی سخت محنت اور پڑھائی کی ضرورت ہے اس سے میں بخوبی واقف اور آگاہ ہوں لیکن مصیبت یہ ہے کہ خوب محنت کرنے کے باوجود میرے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ روزانہ رات کے گیارہ بجے تک پڑھتا ہوں۔ پھر صبح 4بجے اٹھ کر پڑھنے بیٹھ جاتا ہوں۔ کند ذہن بھی نہیں، کتاب کا مفہوم اچھی طرح سمجھتا اور جانتاہوں لیکن جب امتحان کا نتیجہ نکلتا ہے تو میرے نمبر میری محنت کے مطابق نہیںہوتے۔ مہربانی کرکے کوئی ایسا حل بتائیے جس سے اس مشکل کا تدارک کر سکوں۔ (سید سائل عباس شاہ۔ شیخوپورہ)
٭....ڈاکٹر بننے کیلئے آپ کو ایف ایس سی (میڈیکل) کے امتحان میں فرسٹ ڈویژن میں بہت اچھے نمبر حاصل کرنے کی ضرورت ہو گی۔ آپ فرسٹ ایئر کے طالب علم ہیں۔ اگر آپ ابھی سے باقاعدہ اور صحیح طریقے سے اپنے تمام مضامین پڑھنا شروع کر دیں اور دوسال تک باقاعدہ اور صحیح طریقے سے تمام مضامین پڑھتے رہیں تو انشاءاللہ ضرور اپنی خواہش کے مطابق کامیاب ہو جائیںگے۔ اپنے پروفیسرصاحبان سے مل کرمضامین سے متعلق ہدایات حاصل کریں اور ان پر پوری طرح عمل کریں۔ باقاعدہ پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ آج کا کام کل پر نہ چھوڑیں اور جتنا کام آپ نے اپنے پروفیسر صاحبان کی زیر ہدایت اپنے لیے روزانہ متعین کیا ہے اسے بلاناغہ کریں۔ صحیح طریقے سے پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ پڑھا جائے سمجھ کر پڑھا جائے، دلچسپی اور توجہ سے پڑھا جائے حسب ضرورت بار بارپڑھا جائے اورکتاب سے پڑھنے کے بعدکتاب کے بغیر ذہن میں دہرایا جائے۔ پڑھا ہوا مواد اگر تحریر میں لایا جائے تو وہ بہت اچھا ذہن نشین ہوتا ہے۔ سوالات کے جواب میںغیر ضروری مواد کا چھوڑنا اور تمام ضروری مواد کا شامل کرنا نہایت ضروری ہوتاہے اس کیلئے پروفیسر صاحبان کی رہنمائی اور ہدایات لازمی ہیں۔
شوہر کی بے رخی
سوال: میری تربیت ابتدا ہی سے خالص مذہبی ماحول میں ہوئی ہے۔شادی کے بعد جو شوہر ملے ، وہ کئی باتوں میں آزاد خیال تھے! تاہم عرصے تک انہوں نے میری مذہب پرستی پرکوئی اعتراض نہ کیا، کبھی کبھی بحث ہوتی، تو کسی قدر تلخی ضرور پیداہو جاتی،لیکن یہ عارضی ہوتی ، جلد ہی دونوں ٹھیک ہو جاتے، انہیں سگریٹ نوشی کی عادت ہے جو مجھے بہت بُری لگتی ہے۔ کئی بار کہا لیکن وہ اسے ترک کرنے پر آمادہ نہیں۔ انہیں اس بات پر بُرا مناتے دیکھ کر میں نے ان سے اس کا تقاضا کرنا چھوڑ دیا، لیکن پچھلے چند ماہ سے وہ بڑے کھچے کھچے سے رہنے لگے ہیں، بات کروںتو بڑی بے رخی سے پیش آتے ہیں۔ بچوں کو بھی ڈرا دھمکا کر بھگا دیتے ہیں۔ ان کی توجہ اور التفات حاصل کرنے کے لئے لاکھ جتن کر چکی ہوں مگر ان کی بے رخی اور چڑچڑے پن میں ذرا فرق نہیں آیا۔ چند دن پہلے جب احتجاج کے طور پر میں نے مکمل خاموشی اختیار کر لی تو انہوں نے جھوٹے منہ بھی نہ پوچھا، تم کیوں اداس یا پریشان ہو، انہیں گھر میں بیٹھنے کا وقت ملے تو پوچھیں نا، ان کے اس سلوک سے اب رفتہ رفتہ میرے دل میں ان کی ذات سے نفرت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ خدارا ! مجھے اس کا شکار ہونے سے بچائیے۔ (ط، س۔ راولپنڈی)
٭....آپ باپند صوم و صلوٰة ہیں ، آپ چاہتی ہیں کہ آپ کا شوہر بھی آپ کی طرح اسلام کو پسند کرے۔ آپ کی یہ خواہش بہت اچھی ہے لیکن یہ دیکھیں آپ کی اپنے شوہر کو اسلام کے راستے پر چلانے کی خواہش کہیں اپنے راستے پر چلانے کی خواہش تو نہیں۔ آپ کے میاں شریف النفس ہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت بھی کر لیتے ہیں۔ آپ کو ان سے یہ اختلاف ہے کہ وہ قرآن کریم با ترجمہ نہیں پڑھتے، ان کی سگریٹ نوشی کو بھی پسند نہیں کرتیں۔ آپ ذرا انصاف سے سوچیں کیا یہ باتیں شدید اختلاف کا باعث بننی چاہئیں؟۔ آپ کی شادی کو چار سال گزر چکے ہیں۔ آپ کے دو بچے بھی ہیں۔ میاں بیوی کی باہمی محبت شادی کے چار سال بعد ویسی نہیں رہتی جیسی شادی کے ابتدائی ایام میں ہوتی ہے۔ بچوں کی پیدائش پر دلچسپیوں میں وسعت پیدا ہوتی جاتی ہے۔ ابتدائی باہمی دلچسپیوں کی جگہ دوسری ضروری وابستگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس صورت حال سے بدظن نہیں ہونا چاہیے۔ کیا آپ کا آپس میں سیاسی اختلاف بھی ہے، سیاسی اختلاف کو آپ گھریلو اختلاف نہ بننے دیں۔ سیاست کو گھر کی چاردیواری سے باہر رکھیں اور اگر اسے گھرمیں لانا ہی ہے تو ایک دوسرے کے نقطہ نظر سمجھنے اور برداشت کرنیکی کوشش کریں۔ میاں بیوی کے مختلف سیاسی نظریات کا ٹکراﺅ ویسا نہیں ہونا چاہیے جیساسیاسی لیڈروں کا ہوتا ہے۔
زندگی بے معنی سی ہو کر رہ گئی
میری عمر پینسٹھ سال ہو چکی ہے‘ مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ کبھی بھی موت واقع ہو جائے گی۔ رات سو کر صبح نہ اٹھ سکوں گا۔ میں نے ملازمت سے ریٹائر ہونے پر کافی بڑی رقم اپنے بڑھاپے کیلئے بینک میں محفوظ کر رکھی ہے۔ جس کا آدھا حصہ بھی ابھی تک استعمال میں نہیں آیا۔ میرا یہ خیال کہ بڑھاپا عیش میں گزرے گا ‘ غلط ثابت ہوا کیونکہ میرا سارا وقت خوف کی اذیت میں گزر رہا ہے۔ ( اسد اللہ‘ کراچی)
٭ کم لوگ بڑھاپا اچھا گزار پاتے ہیں‘ زیادہ تر لوگ جو فارغ رہتے ہیں اور بڑھاپا پس انداز کی ہوئی رقم پر گزارتے ہیں ‘ کسی نہ کسی نفسیاتی مسئلے کا شکا ر ہو کر پریشان ہونا شروع کر دیتے ہیں۔ آپ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی لگتا ہے۔ موت سے خوفزدہ ہیں جبکہ یہ تو اٹل حقیقت ہے‘ اس سے خوف محسوس کر کے موجودہ خوشیوں کے لطف سے محروم ہو رہے ہیں ‘ در اصل آپ نے زندگی کی گہما گہمی میں حصہ لینا ہی ترک کر دیا ہے۔ یوں زندگی بے معنی سی ہو کر رہ گئی ہے۔ عقلمند لوگ اپنی زندگی کے ہر دور سے گہری دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ آج سے آپ بھی ایک ایسے وقت کا خوف نہیں کریں گے جس کے بارے میں آپ کو معلوم نہیں۔ اپنے آج اور آنے والے کل کیلئے دل و دماغ کی گہرائیوں سے دعا کریں‘ اپنے رب سے لولگائیں اور اور گذشتہ کی معافی مانگیں اور آئندہ کی بہتری کی دعا کریں۔ آپ محسوس کریں گے کہ گہرا سکون آپ کی زندگی میں آگیا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں