کلاس کے سارے بچوں میں ان کا قد لمبا تھا سب کو یہی اچنبھا تھا کہ قد تو بڑا ہے مگر عقل پر پتھر پڑا ہے۔ عقل ان کی کند تھی‘ سمجھ کی کھڑکی بند تھی۔ صلواتیں سمجھے جاتے تھے۔ بدھو گنے جاتے تھے
رضوان قاسم‘ گوجرانوالہ
شیخ چلی کے والدین نے شیخ چلی کو سکول میں داخل کروادیا۔ پڑھنے لکھنے والوں میں شامل کردیا۔ ایک پرائمری سکول میں ننھے منے شیخ چلی کا داخلہ ہوگیا۔ پڑھنے لکھنے کا معاملہ ہوگیا۔ ہاتھ میں ایک بستہ آگیا‘ سامنے سکول کا راستہ آگیا۔ صبح سویرے جلدی اٹھنا لازمی ہوگیا۔ ایک بچہ سلیقے کا آدمی ہوگیا۔
ماں باپ نے اپنی اس چہیتی اولاد کو اس دولت شادو ناشاد کو اس لیے سکول میں بھیجا کہ پڑھ لکھ کر انسان بنے‘ علم کے پھولوں سے تعلیم کا گلدان بنے۔ ماں باپ کو اس بات کا رنج تھا کہ شیخ چلی کا نام سب سے آخر میں درج تھا۔ اسی لیے کلاس میں پیچھے کی پہلی صف میں تشریف رکھتے تھے‘ نہ دوست رکھتے تھے نہ حریف رکھتے تھے۔ اپنی ہی ذات کے میدان میں گھومتے تھے۔ بھاگتے کم تھے‘ بیٹھے بیٹھے اونگھتے تھے۔ ٹیچر کیا پڑھا رہے ہیں‘ کس مضمون کی پتنگ اڑا رہے ہیں‘ انہیں کچھ خبر نہیں تھی کیونکہ ان کی نظر ادھر نہیں تھی۔ کتاب کا ہر ورق ہاتھ سے نکل نکل جاتا تھا اور ہر سبق دماغ سے پھسل پھسل جاتا تھا۔
ٹیچر نے کئی بار ڈانٹا‘ پھول سے گالوں پر مارا چانٹا مگر شیخ چلی نہ جانے کس مٹی کے پتلے تھے مار کا کوئی اثر نہیں تھا حالانکہ دبلے پتلے تھے۔
کلاس کے سارے بچوں میں ان کا قد لمبا تھا سب کو یہی اچنبھا تھا کہ قد تو بڑا ہے مگر عقل پر پتھر پڑا ہے۔ عقل ان کی کند تھی‘ سمجھ کی کھڑکی بند تھی۔ صلواتیں سمجھے جاتے تھے۔ بدھو گنے جاتے تھے۔ امتحان تو نقل پرمنحصر تھا۔ حساب میں تو نمبر صفر تھا۔ یہ جو اردو کی پہلی کتاب تھی ان کیلئے عذاب تھی۔ الف کے زیرو زبر اور پیش سے پریشان ہوجاتے تھے۔ ب اور پ اور ث کے نقطوں سے حیران ہوجاتے تھے۔ ج اور چ نے جی کا چین اڑا دیا تھا۔ ح اورخ کی حالت خراب کردی تھی اور بے حساب کردی تھی۔ حروف د سے ان کی دال گل نہیں رہی تھی۔ بلا ٹل نہیں رہی تھی۔ حرف ذ نے ذلت میں ڈال دیا تھا۔ عزت کا بھرتہ نکال دیا تھا۔ حرف ط نے انہیں طوطا بنادیا تھا‘ اس لیے رٹنے کی عادت پڑگئی تھی۔ عقل کی بستی اجڑ گئی تھی۔ حرف ظ نے ان کی ظرافت کی رگ کو پھڑپھڑانا سکھادیا تھا۔
خود رونا اور دوسروں کو ہنسانا بتادیا تھا۔ ان کی وجہ سے دانتوں کی نمائش ہورہی تھی۔ ان کے حلیے کو دیکھ کر خواہ مخواہ ہنسنے کی خواہش ہورہی تھی۔ ان کا حلیہ ماشاء اللہ لاجواب تھا۔ نہ آفتاب تھا نہ ماہتاب تھا وہ تو مٹی کا ایک کھلونا تھے کارٹون تھے‘ ایک نمونہ تھے۔ حرف راورز کو دیکھ کر روتے تھے‘ زاروقطار روتے تھے۔ اشکوں سے منہ دھوتے تھے۔ اس لیے صبح گھر سے منہ دھوئے بغیر آتے تھے۔ آنسوؤں سے غسل فرماتے تھے۔ حرف ع اور غ سے علم غلم کا ورد چالو ہوجاتا تھا۔ ایک حرف آم تو دوسرا حرف آلو ہوجاتا تھا۔ ع اور غ پڑھ کر وہ کسی نہ کسی طرح غٹا غافل ہوجانا چاہتےتھے۔ عجیب و غریب کمال دکھانا چاہتے تھے حرف ف کو دیکھ کر فوراً فقیر کی یاد کرنے لگتے تھے اور حرف ق سے انہیں قوالی یاد آجاتی تھی جو وہ جمعرات کو کسی پیر بزرگ کے مزار پر اپنے بڑے شیخ چلی یعنی والد صاحب کے ساتھ جاکر سنا کرتے تھے۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی سر کو دھنا کرتے تھے۔
حرف ل اور م کو پڑھ کرکیسی سی کرنے لگتے تھے جیسے کہ انہوں نے وہ حروف نہیں بلکہ لال مرچ منہ میں دبالیے ہوں۔ زور سے چبا لیے ہوں۔ حرف ل سے ماں کا لاڈ اور حرف م سے ممتا یاد آجاتی تھی اور طبیعت فوراً گھر جانے کو للچاتی تھی مگر حرف ل اور م کے ساتھ لکڑی کی مار بھی یاد آتی تھی جس سے طبیعت گھبراتی تھی۔ اس لیے چپ ہوجاتے تھے۔
حرف ن کودیکھ کر نہ جانے کیوں ناک کھجانے لگ جاتے تھے۔ گویا جماعت سے نو دو گیارہ ہوجانے کی ترکیب کا نقشہ بناتے تھے۔ حرف ن سے ندی کا کنارا یاد آتا تھا جہاں جاکر وہ نہانا چاہتے تھے۔ جسم کی گندگی کو لہروں میں بہانا چاہتے تھے۔ سکول سے رفو چکر ہونا چاہتے تھے۔ پڑھائی لکھائی سے ہاتھ دھونا چاہتے تھے۔
حروف و کو دیکھ کر دل سے یہ وعدہ کررہے تھے کہ کتاب کا ہر ایک ورق پھاڑ کر یہاں سے ایک دن ایسے بھاگوں کا کہ زندگی بھر سکول کا فوٹو تک نہیں دیکھوں گا۔
حرف ی نے مجھے یہ بات یقین کے ساتھ بتائی ہے کہ جو دل سوچے اس پر عمل کرنے سے ہی نجات ملتی ہے۔ ورنہ قسمت ہاتھ ملتی ہے۔ غرض کہ پہلی کتاب کے حرف الف سے ی تک کہ سارے حرفوں نے شیخ چلی کو اس قدر معلومات دی تھیں کہ وہ امتحان میں سر کھپانے اور کاغذ پر قلم چلانے کی ساری باتوں کو وقت اور طاقت گنوانے کا ذریعہ سمجھنے لگتے تھے۔
شیخ چلی پہلی کلاس میں غضب بن کر آئے تھے۔ ہم جماعت ساتھیوں کی خاطر تفریح کا سبب بن کرآئے تھے۔ ان کی پرلطف باتیں ان کی احمقانہ عادتیں دلچسپی سے خالی نہیں تھیں۔ ان کی معمولی نزاکتیں‘ ان کی چالو حرکتیں ہنسی کا سامان تھیں۔ ان کی حرکتیں قہقہوں کی جان تھیں۔اردو کا جو قاعدہ تھا ان کیلئے بے فائدہ تھا۔ نظم یاد تھی نہ نثر یاد تھا۔ اگر یاد تھا تو گھر یاد تھا۔ جہاں ان کی ماں انہیں پیار سے کہتی تھیں گڈو اور کھانے کو دیتی تھیں لڈو۔۔۔ مگر یہاں کلاس میں جناب جی کے ڈنڈے مل رہے تھے۔ سوال ان کیلئے مرغی بن گئی تھی۔ اس لیے جواب دینے پر پرچے میں انڈے مل رہے تھے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں