جب سے زندگی اور معاشرے کے رواج اور مزاج نے کروٹ بدلی ہے ہر چیز ہی بدل گئی ہے اس کا اثر دو چیزوں پر زیادہ پڑا ایک لباس پر اوردوسرا غذا پر ‘ موجودہ نشست میں آپ کی خدمت میں صرف غذا پر اپنے سالہا سال کے طبی مشاہدات اور تجربات عرض کروں گا۔
ایک صاحب کا خط آیا کہ میں گونا گوں بیماریوں میں مبتلا تھا ان میں سے چند ایک بیماریاں یہ ہیں۔ سر ہر وقت پکڑا رہتا تھا ‘ آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا تھا‘ طبیعت ہر وقت بوجھل بوجھل‘ غصہ چڑ چڑا پن زیادہ‘ کندھے بندھے ہوئے ‘ سر جکڑا ہوا‘ اعصاب کھنچے ہوئے ‘معدے میں گیس‘ تبخیر‘ بے چینی‘ اجابت غیر تسلی بخش‘قبض کشا دوائی کھالوں تو فائدہ ورنہ پھر وہی حالت‘ بواسیر کی علامات بعض اوقات ظاہر ہو جاتی تھیں ‘ پیٹ بڑھ رہا تھا ‘ کھایا پیا جسم کو نہیں لگتا تھا۔ دل کی دھڑکن خود بخود تیز ہو جاتی تھی۔ اسلام آباد میں ایک بڑے عہدے پر متمکن تھا ہر قسم کی اعلیٰ میڈیکل سہولیات میسر تھیں لیکن ہر طرح کے علاج کے باوجود دن بدن پریشانی اور تکلیف بڑھ رہی تھی۔ کسی طرح بھی میری طبیعت درست نہیں ہو رہی تھی۔ بعض اوقات مایوسی‘ ڈپریشن اور ٹینشن اتنی بڑھ جاتی کہ خود کشی کرنے کو دل چاہتا۔ مرحوم صدر ضیاءالحق کے ذاتی معالج سے بھی ملاقات کی اورعلاج کرایا ‘ مسئلہ پھر بھی حل نہ ہوا۔ مایوسی ‘ پریشانی اور مسلسل علاج کئی سال تک جاری رہا‘ آخر ایک دن ایک تجربہ کار بوڑھے آدمی ملے انہوں نے اپنی کہانی کچھ یوں سنائی۔
میں دوسری جنگ عظیم میں بہت عرصہ ترکی میں رہا‘ حالات جیسے بھی رہے لیکن جبر اور صبر سے زندگی گزاری‘ ان حالات کی وجہ سے میری حالت یہ ہو گئی کہ میں ٹینشن ‘ ڈپریشن کا ایک مستقل مریض بن گیا۔ چھوٹے شہر کے تمام معالج آزما کر بڑے شہر کا رخ کیا‘ نفسیاتی ڈاکٹر‘ فزیشن اور طرح طرح کے معالج اپنے طریقے اور ٹیسٹوں سے علاج کرتے رہتے تھے۔ سکون اور نیند کی گولیاں کھا کر میں اپنے آپ کو معاشرے کا گھٹیا اور بوجھل فرد سمجھتا تھا۔ ہر وقت غنودگی میرا مقدر بن گئی۔ گھبراہٹ ‘بے چینی‘ لاغری‘ کمزوری‘ دماغی اعصابی کھچاﺅ‘ یاداشت میں کمی ‘نگاہ پر اثر‘ بات بات میں چڑ جانا یا پھر اس کا اتنا اثر لینا کہ خود بھی بیزار اور گھروالے بھی بے چین حتیٰ کہ معدہ ‘ جگر اور جسم کے بازو ٹانگیں بظاہر کام کرنا چھوڑ رہے تھے۔ قبض بھی زیادہ ہو گئی۔ مجھے کسی نے مشورہ دیا کہ آب و ہوا تبدیل کروں ۔ میں اکیلا پہاڑی علاقوں کی طرف نکل گیا ایک ایسی جگہ گیا جہاں امرود وافر مقدار میں تھے۔ میں نے خوب امرود کھائے۔ ایک بوڑھا پہاڑی آدمی مجھے دیکھ کر کہنے لگا کہ یہ امرود نہ کھاﺅ‘ یہ کھاﺅ۔ جو میں کھا رہا تھا وہ سخت تھا اور وہ ایسا دے رہا تھا جسے ہم خراب سڑا ہوا سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ نامعلوم اس بوڑھے کی بات میں کیا تاثیر تھی کہ میں نے وہی نہایت نرم بلکہ نرم سے بھی زیادہ نرم امردو کھائے پھر بوڑھے نے ایک پڑیا دی کہ یہ کالی مرچ پسی ہوئی ہے یہ ضرور چھڑکا کرو اور کالی مرچ لگا کر ہی کھایا کرو۔کچھ دن بعد و ہ کالی مرچ ختم ہو گئی اور میں نے مزید کالی مرچ لے کر پیس لی اور نرم امرود کھانا شروع کر دیئے۔ اپنی طبیعت نہایت آسودہ‘ بہترین اور ہشاش بشاش محسوس ہونا شروع ہو گئی ۔بے خوابی‘ نیند کی کمی ‘ہائی بلڈ پریشر اور قبض سے مکمل نجات مل گئی ۔ میں نے سمجھا کہ یہ آب و ہوا کی تبدیلی کا اثر ہے ۔ دو ہفتے وہاں گزار کر اس نادیدہ خوف کیساتھ واپس اپنے چھوٹے شہر لوٹا کہ وہ مرض پھر غالب ہو گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ دل میں ایک احساس پیدا ہوا کہ یہ امرود کی برکات ہیں۔ میں نے اپنی زندگی کا معمول بنا لیا کہ صبح جی بھر کر نرم امرود کالی مرچ چھڑک کر کھاتا اس کے بعد کچھ بھی نہ کھاتا۔ پھر ڈھلتی دوپہر میںسادہ غذائیں کھاتا ۔میں نے اپنے آپ کو نئی زندگی پاتے دیکھا ۔بس پھر کیا تھا ۔ٹھیلے پر جو نرم بظاہر خراب امرود ہوتے تھے وہ نہایت ارزاں چن کر لے آتا‘ خوب جی بھر کر کھاتا ۔چند ہفتوںمیں ایسا بدلا کہ زندگی کے دن رات ہی بدل گئے اور میں تندرست ہو گیا اب تک بے شمار لوگوں کو بتا چکا ہوں‘جس نے بھی مستقل مزاجی سے امرود اور کالی مرچ کا ٹوٹکہ آزمایا ‘ تعریف کی او ر ڈھیروں ادویات اس سے چھوٹ گئیں لیکن کچھ ہفتے آزمانا ضروری ہے۔
تجربہ کار بوڑھے کی کہانی سن کر میں نے صدر ضیاءالحق مرحوم کے معالج کا علاج چھوڑ دیا اور بالکل نرم امرود اور کالی مرچ کا مسلسل استعمال شروع کر دیا۔ واقعی جو فائدہ ان صاحب کو ہوا وہی مجھے شروع ہو گیا اور میں بالکل تندرست ہو گیا۔ آپ کو خط لکھ رہا ہوں کہ اس کے کوئی مضر اثرات تو نہیں۔ میں نے اسلام آباد کے ان صاحب کو جنہوں نے صدر کے معالج سے علاج کرایا تھا جواب دیا کہ یہ آپ کے تجربات ہیں جبکہ میرے تجربات امرود اور کالی مرچ کے متعلق اس سے بھی انوکھے ہیں۔ اگر واقعات لکھنا شروع کر دوں تو اس کیلئے تو ایک پورا دفتر چاہیے لیکن اس کے مختصر فوائد عرض کرتا ہوں لیکن یہ فوائد سخت کچے اور ترش یعنی کھٹے امرود کے نہیں۔ وہ امرود جو بالکل پکا ہوا اور نہایت نرم ہو یا لے کر گھر رکھ دیں کئی دنوں کے بعد خود نرم اور گداز ہو جائیں گے۔ ہائی بلڈ پریشر‘ معدے کی گیس‘ تبخیر‘ پیٹ کا بڑھنا‘ آنتوں کے کیڑے‘ بواسیر‘ جوڑوں اور کمر کا درد‘ چاہے جتنا بھی پرانا کیوں نہ ہوں۔ دل کی گھبراہٹ بے خوابی کہ آدمی ادویات کھا کھا کر تھک گیا ہو۔ جگر مثانے کی گرمی‘ نگاہ کی کمزوری‘ اعصابی تھکن کیلئے نہایت مفید ہے۔ عورتوں میں لیکوریا اندرونی ورم ‘ کمر کا درد‘ حتیٰ کہ لیکوریا جتنا پرانا ہی کیوں نہ ہو‘ ورم جتنی پرانی کیوں نہ ہو حتیٰ کہ بے اولادی میں بھی میرے تجربات ہیں کہ امرود کھانے والے کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ اس طرح نوجوانوں کے مسائل جو میں وضاحت سے نہیں لکھ سکتا ان کیلئے امرود ایک انمول تحفہ اور وسیلہ شفاءہے۔ قارئین! یہ مختصر سے فوائد آپ کی خدمت میں تحریر کئے ہیں‘اگر آپ کے تجربے میں مزید فوائد ہوں تو ضرور تحریر کریں۔ (نوٹ: امرود صبح کے علاوہ دن میں کسی اور وقت بھی استعمال ہو سکتا ہے۔)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں