Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

جنات کا پیدائشی دوست‘علامہ لاہوتی پراسراری

ماہنامہ عبقری - مئی 2020ء

یہ کوئی جانور نہیں کوئی اور کہانی ہے
گزشتہ شب جمعہ کو میں قبرستان میں چلا گیا‘ رات کی تاریکی تھی‘ نہ زیادہ سردی ہے نہ زیادہ گرمی ہے‘ میں ایک پرانی قبر کے ساتھ جاکر بیٹھ گیا ‘ شہر کا ایک بہت بڑا اور پرانا قبرستان ہے‘ تھوڑی دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ ایک سرسراہٹ ہے‘ جو کہ مجھے محسوس ہورہی ہے‘ میں نے سمجھا کوئی سانپ‘ نیولا یا کوئی ایسا جانور ہے جس کی وجہ سے یہ سرسراہٹ ہے‘ میں ایک وظیفہ تسبیح کررہا تھا میں وہ وظیفہ اور تسبیح کرتا رہا لیکن وہ سرسراہٹ بڑھنا شروع ہوگئی اور سرسراہٹ بڑھتے بڑھتے ایک احساس بڑھ گیا کہ یہ نہ سانپ ہے‘ نہ نیولا ہے ‘نہ کوئی اور جانور ہے بلکہ یہ کوئی اور کہانی ہے‘ میں یہ چیز سوچ ہی رہا تھا کہ محسوس ہوا کہ کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا ہے اور وہ ہاتھ انتہائی گرم تھا‘ ایسے تھا جیسے کوئی پگھلتا ہوا لوہا کسی نے میرے کندھے پر رکھا لیکن چونکہ میں اپنے وظیفے میں مشغول تھا میں اپنا سر نہیں اٹھا سکتا تھا اور اپنی حالت تبدیل نہیں کرسکتا‘ میں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی‘ وظیفہ کرتا رہا‘ تسبیح کرتا رہا‘ ہاتھ کی شدت اور گرمی کا مجھے احساس بڑھ رہا تھا‘ ایسے جیسے میرا لباس شاید جل گیا ہے‘ میرا لباس جلنے کے بعد میرے جسم کی کھال جلنا شروع ہوگئی‘ مجبوراً میں نے اپنا کندھا جھٹکا‘ پھر میں اپنے وظیفے میں مشغول رہا اور اپنی تسبیح میں مشغول رہا اور اپنے وظیفے اور تسبیح کومیں پڑھتا رہا‘ میں وظیفہ اور تسبیح پڑھتا رہا میں دھیان سے اپنے عمل کو کرتا رہا عمل کرتے کرتے کرتے آخرکار دو گھنٹے ستائیس منٹ کے بعد جب میرا عمل ختم ہوا تو میں اپنی حالت سے اٹھا۔
خوفناک قسم کا بہت بڑا بندر
دائیں بائیں دیکھا اور پیچھے دیکھا تو ایک خوفناک قسم کا ایک بہت بڑا بندر تھا جسے میں بن مانس کہوں یا بندر کہوں‘ جس کا سر اونچے درخت کے ساتھ لگ رہا تھا اور وہ کھڑا مجھے مسکرا کر دیکھ رہا تھا مجھے احساس ہوا کہ یہ کونسی بلا ہے؟ اور اتنا خوفناک تھا کہ شاید انسان اس کے سامنے ایک چھوٹی سی گیند کے برابر تھا کہ وہ ایسے ہاتھ میں انسان کو ڈالے اور پل میں چبا جائے یانگل جائے‘ میں نے ان سےپوچھا کہ آپ نے وظیفے کے دوران میرے کندھے پرہاتھ رکھا‘ کون ہیں آپ؟ وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ آکر بیٹھ گیا‘ اس کا سر میرے سامنے آیا‘ اس کے سر میں سے گرم ہوا اور بھاپ نکل رہی تھی‘ ایسے جیسے سخت گرمی میں لُو چلتی ہے بلکہ اس سے کہیں زیادہ سخت کہنے لگا: میں اس قبرستان میں جنات کا سردار ہوں‘ آپ بارہا قبرستان آتے ہیں‘ میں آپ کو بار بار دیکھتا ہوں آپ کے بارے میں بہت سنا ہے کہ جنات کا آپ سے بہت تعلق ہے‘ جنات سے آپ کی دوستی ہے‘ بڑے بڑے جنات آپ کے پاس آتے ہیں‘ آج میں نے بھی چاہا کہ آپ سے ملاقات! میں نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا: کیا ملاقات کیلئے یہ شکل ضروری تھی؟ کیا آپ کوئی اچھی سی صورت بنا کرمجھ سے ملاقات کرلیتے توکتنا اچھا ہوتا اور کتنی بہتری ہوتی۔
مجھے انسانوں سے ملاقات کا سلیقہ نہیں
اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی بات آگے بڑھائی کہنے لگے: دراصل بات یہ ہے کہ جب بھی میں آیا ہوں اسی شکل میں کسی کے سامنےآیا ہوں ویسے بھی آج تک میں کسی انسان کے سامنے اس شکل میں کبھی آیا نہیں نا میں نے کبھی انسان سے آج تک ملاقات کی ہے‘ اگر آپ کہتے ہیں تو میں اپنی شکل بدل لیتا ہوں کیونکہ انسانوں سے ملاقات نہیں کی‘ مجھے ان سے ملاقات کا سلیقہ طریقہ نہیں ہے کہ میں ان سے کیسے ملاقات کروں؟ میں نے ان سے کہا ٹھیک ہے‘ آپ اپنی شکل بدل لیں‘ پلک جھپکتے ہی میں نے محسوس کیا کہ میرے ساتھ ایک چھوٹا سا بندر بیٹھا ہے‘ میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اب میں نے کہا کہ بولے آپ کس لیے آئے اور آپ کون ہیں؟ اور اپنا تعارف کروائیں۔
میں زندگی کی تعریف جانتا ہوں
میرا سب سے پہلا تعارف یہ ہے کہ میری عمر سترہ سو سال ہے اور میں نے زندگی کے بہت عروج و زوال دیکھے میں نے بادشاہتیں دیکھیں‘ بادشاہوں کو دیکھا ان کے تخت دیکھے‘ ویرانے دیکھے‘ ویرانوں کو آباد ہوتے دیکھا‘ وہاں بادشاہت دیکھی‘ قلعے دیکھے پھر انہیں ویران ہوتے دیکھا پھر ان ویرانوں کی آبادیاں دیکھیں۔ میں نے پانچ پانچ سات سات ویرانے دیکھے ہیں اور سات سات آبادیاں دیکھی ہیں یعنی ایک چیز آباد ہوئی پھر ویران ہوگئی‘ پھر آباد ہوئی پھر ویران ہوگئی۔ میں نے اس طرح کا نظام دیکھا ہے میں زندگی کی تعریف جانتا ہوں‘ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ پوچھوں یہ مسلمان ہے یا غیرمسلم؟ میں نے پوچھا آپ مسلمان ہیں یا غیرمسلم؟
حضورﷺ کا دور دیکھا مگر مسلمان نہیں ہوا؟
کہنے لگا: میں غیرمسلم ہوں؟ مجھے حیرت ہوئی کہ تم تو وہ ہو جس نے حضور ﷺ کا دور دیکھا ہے‘ کہنے لگا: ہاں میں نے حضور (ﷺ) کا دور دیکھا ہے‘ سنا ہے لیکن حضور (ﷺ) کی زیارت نہیں کی۔ جنات بہت زیادہ مسلمان ہیں‘ انہوں نے مجھے مکہ لے جانے کی بہت کوشش کی‘ پھر مدینہ لے جانے کی لیکن میرا اپنا مذہب ہے‘ میں اصل میں آتش پرست یعنی آگ کا پجاری ہوں‘ ہم اس وقت بہت زیادہ جنات یہاں آگ کے پجاری ہیں‘ میں نے ان سے پوچھا آگ کے پجاری ہیں پھر آپ یہاں کیا کرتے ہیں؟ کہا :دراصل بات یہ ہے کہ ہم خود گورکن تو نہیں لیکن گورکنوں کے ساتھ رہتے ہیں‘ قبرستان میں جو شخص آتا ہے ہم اسے بہکاتے ہیں‘ بہلاتے ہیں اور پھسلاتے ہیں‘ اسے گناہوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں اور ہمارا کام صرف اور صرف یہ ہے۔
جان لیجئے! جرائم پیشہ لوگ قبرستان کیوں جاتے ہیں
مجھے حیرت ہوئی‘ ان کی بات سن کر میں نے کہا اس لیے جو بھی جرائم پیشہ لوگ ہیں وہ قبرستانوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں‘ اگلا سوال کرنے سے پہلے میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ میں نےا ٓج تک کسی گورکن کو اللہ والا نہیں دیکھا‘ روحانی دنیا میں نہیں دیکھا حالانکہ قبرستان میں توعبرت حاصل ہوتی ہے قبرستان میں تو انسان عبرت اورموت کی تیاری کرتا ہے لیکن میں نے زندگی میں ایسا کوئی نہیں دیکھا‘ شاید کسی نے دیکھا ہوُ میں دعویٰ نہیں کرسکتا‘ آج تک کسی گورکن کو میں نے نہیں دیکھا کہ اس کی زندگی میں شریعت ہو‘ روحانیت ہو‘ اب سمجھ آئی کہ قبرستانوں میں ایسے شریر کالے اور خبیث جنات ہوتے ہیں جو لوگوں کو بہکاتے رہتے ہیں‘ مجھے حیرت ہوئی میں اس کی باتیں سن رہا تھا میں اسے بندر جن کہوں‘ وہ بندر جن بولا: ہمارا کام یہاں صرف اور صرف فتنہ اور فساد پھیلانا ہے‘ لوگ آتے ہیں اور آکر یہ دیکھتے ہیں کہ یہاں تنہائی ہے‘ گناہ کے لیے‘ نشہ کیلئے‘ ڈاکو آتے ہیں‘ چور آتے ہیں‘ نشہ کرنے والے گناہ کرنے والے‘ بدکاری کرنے والے‘ قبرستان کا رخ کرتے ہیں‘ ہم ان کے دلوں میں وساوس ڈالتےہیں‘ ماحول مہیا کرتے ہیں ان کو تائید دیتے ہیں‘ دل کو سکون اور وقتی چین دیتے ہیں۔
قبرستانی جن سے میری پہلی ملاقات
میں حیرت سے دیکھ رہا تھا‘ یہ کسی خطرناک قبرستانی جن سے میری پہلی ملاقات تھی۔ اس سے پہلے بھی قبرستان کے جنات سے ملاقات ہوئی لیکن اس طرز کے جن سے میری پہلی ملاقات تھی۔ یہ ملاقات کیا انوکھی ملاقات تھی کہ اس جن کے وجود میں بہت زیادہ آگ تھی‘ میں نے پوچھا: یہ آگ آپ کے وجود میں کیوں ہے کہا ہم خالص آگ کے شعلوں سے بنے ہوئے ہیں‘ کچھ جنات آگ سے بنے ہوئے ہیں‘ کچھ دھوئیں سے بنے ہوئے ہیں‘ کوئی انگاروں سے بنے ہوئے ہیں‘ ہم خالص شعلوں سے بنے ہوئے ہیں چونکہ ہم خالص شعلوں سے بنے ہوئے ہیں‘ اس لیے ہروقت ہمارے جسم سے حرارت بہت مقدار میں نکلتی رہتی ہے‘ میں ان کی باتیں سن رہا تھا میں نے کہا آپ پھر مجھے کیوں ملنے آئے ہیں؟
کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ کوئی روحانی دنیا کے عظیم انسان ہیں تو میں نے کہا آپ سے مل لوں‘ پتہ نہیں میرے دل میں کیا آیا کہ میں نے پوچھا: مجھ سے دوستی کریں گے‘ کہا دوستی کرنے کے لیے تو آیا ہوں تو میں نے کہا ٹھیک ہے آپ میرے دوستوں کے ساتھ دوستی کریں۔
یہ ہمارا دوست بندر جن ہے!
میں نے بیٹھے بیٹھے اپنے جتنے بھی جنات دوست تھے سب کو بلالیا‘ پل بھر میں وہ آگئے‘ رات کی تنہائی میں ایک انوکھی محفل جم گئی‘ ایک انوکھا وجود اور ایک انوکھا نظام ہمارے پاس ایک پل میں تیار ہوگیا۔میں نے سب جنات کو کہا کہ یہ ہمارا ایک دوست ’بندر جن‘ ہے‘ آپ سارے اس سے دوستی کریں‘ سب اس سے ملے‘ پیار کیا‘ کوئی بھی جاننے والا نہیں تھا‘وہ کسی کو بھی نہیں جانتا تھا‘جو مسلمان جنات آتے تھے ‘ وہ بھی اس بندر جن کو نہیں جانتے تھے۔ ان سب کو میں نے کہا کہ آپ سب بیٹھ کر ذکر کریں ‘میں ان سے باتیں کرتا ہوں‘ وہ سب اپنی تسبیحات اور ذکر میں لگ گئے‘ بندر جن سے میں نے باتیں کرنا شروع کیں تو بندر جن باتیں کرتا رہا ‘میں اس کی باتیں سنتا رہا وہ کہنے لگا : میں نے بادشاہوں کے بہت بڑے بڑے محلات اور دروازے دیکھے ہیں‘ ایسے ایسے بادشاہ دیکھے جنہیں تاریخ نے لکھا ہی نہیں مگر میں نے ان کی بڑی بڑی بادشاہتیں دیکھیں میں نے پوچھا :آپ کوئی تاریخ لکھ سکتے ہیں‘ کہا ہمارا یہ شعبہ نہیں‘ آپ جس بادشاہ کا کہیں ہم آپ کو اس کے واقعات سناتے ہیں۔
مجھے بنگال کے بادشاہوں کے قصے سنائیں
اچانک میرے دل میں ایسے خیال آیا کہ میں نے کہا کہ مجھے بنگال کے بادشاہوں کے کچھ تذکرے سنائیں۔اس نے بنگال کے بادشاہ کا نام لیا‘ اس کا تذکرہ سنانا شروع کیا۔ وہ اس کا تذکرہ بتارہا تھا کہ بنگال میں ایک بادشاہ تھاجو بہت ظالم تھا سفاک بھی تھا بدکار بھی تھا اور خبیث مزاج بھی تھا اور حیرت انگیزطور پر اس کا بیٹا ولی عہد بہت زیادہ نیک دل‘ نیک سیرت تھا‘وہ اپنے باپ کو ظلم سے روکتا تھا حتیٰ کہ بیٹا جوان ہوگیا ‘ولی عہد کا اعلان کردیا گیا کہ یہ ولی عہد ہوگا۔ جب وہ ولی عہد بنا تو وہ والد کے ظلم و ستم کو دیکھ کر مملکت کے امور میں زیادہ دخل دینے لگا اور والد کے ظلم و ستم کو روکنے لگا‘ وہ اکثر والد کے ظلم و ستم میں دخل دیتا تھا والد اسے بیٹھ کر سمجھاتا کہ یہ مملکت کے امور ہیں تمہیں اس میں دخل بھی نہیں دینا اور سیکھنا بھی ہے وہ مملکت کے امور میں دخل دیتا تھا آخرکار اس کے والد نے یہ تدبیر سوچی کسی طرح اس کو قتل کردیا جائے اور اس کے قتل کے منصوبے بنانے لگا‘ آخرکار اس نے یہ سوچا کہ اس کو شکار کے نام پر قتل کروایا جائے‘ بیٹے کو شکار پر لے کر گیا اچانک دو ہرن آگئے۔
ولی عہد پر قاتلانہ حملہ
باپ کہنے لگا:ایک ہرن کے پیچھے میں جاتا ہوں اور ایک ہرن کے پیچھے تم جاؤ اور اس وقت تک واپس نہ آنا جب تک ہرن شکار کرکے میرے پاس نہ لانا‘ میں بھی اس وقت تک واپس نہیں آؤں گا جب تک ہرن شکار نہیں کرلیتا۔ دونوں محل میں ملیں گے یہ کہہ کر اس نے گھوڑا دوڑایا اور ولی عہد نے بھی گھوڑا دوڑایا‘ ولی عہد گھوڑے کو بھگاتا رہا‘ آگے بڑھتا رہا آخر کار بڑھتے بڑھتے ولی عہد نے دیکھا کہ سامنے کچھ لوگ ہیں جو تلواریں لے کر اس کے سامنے اچانک آگئے وہ سمجھا کہ شاید کوئی ڈاکو ہیں‘ ولی عہد نے کہا مجھے مت چھیڑو‘ میں ولی عہد ہوں‘ یہ میری مملکت ہے اورمیں جب تمہیں کچھ نہیں کہہ رہا تم مجھے کچھ کیوں کہہ رہے ہو؟ لیکن انہوں نے کوئی بات نہیں سنی ‘ ولی عہد چونکہ تلوار چلانا جانتا تھا‘ وہ ہرن کو بھول گیا اور ان سے مقابلہ کرنے لگا‘ مقابلہ کرتے کرتے ان میں سے تین آدمی ختم ہوگئے اور باقی دو بھاگ گئے ایک آدمی ان میں سے مقابلہ کرتا رہا‘ آخرکار وہ بھی گرگیا‘ کچھ زخم ولی عہد کو بھی لگے لیکن اتنے کاری نہیں تھے‘ ولی عہد اس کو چھوڑ کر اپنے باپ کے عہد و پیمان کو باقی رکھنے کےلیے کہ باپ نے کہا تھا کہ ہرن کو شکار کرکے لانا ہے‘ اور اس وقت تک واپس نہیں آنا جب تک ہرن کا شکار نہ ہوجائے‘ وہ ہرن کا شکار کرنے کے لیے آگے بڑھا ‘ہرن تو اب گم ہوچکا تھا‘ زخم بھی اس کو لگے تھے خون بھی بہہ رہا تھا لیکن یہ ہرن کو تلاش کرتا رہا‘ حتیٰ کہ اس کو رات پڑگئی‘ ادھر بادشاہ اس کا باپ جس نے اس کی خدمت لگائی تھی کہ وہ ہرن کو تلاش کرکے آئے گا وہ کسی ہرن کے پیچھے نہیں گیا اور وہ سیدھا اپنے محل میں چلا گیا اور اس نے جو قاتل بھیجے تھے ان قاتلوں کے انتظار میں ٹہلنے لگا کہ یہ قاتل کب آئیں گے؟ کچھ ہی دیر کے بعد دو افراد زخموں سے چور خون سے لبریز اس کے پاس آئے اور آکر اس کو سارا قصہ سنایا کہ کس طرح ولی عہد نے مقابلہ کیا‘ آخرکار وہ مقابلہ میں جیت گیا ہم ہار گئے‘ ہمارے بندے بھی قتل ہوگئے اور ولی عہد نے ان سب بندوں کو قتل کیا اور ہم مجبوراً واپس آگئے۔
بادشاہ نے ولی عہد کے پیچھے جاسوس چھوڑ دئیے!
باپ بہت پریشان ہوا‘ رات تک شہزادہ واپس نہ آیا‘ اسے یہ تشویش ہوئی کہ شاید کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا بیٹا کسی کے ساتھ مل کر کوئی بغاوت نہ کردے‘ اسے پتہ چل گیا ہے کہ باپ نے مجھے قتل کرانے کی تدبیر سوچی ہے‘ اس نے کچھ جاسوس بھیجے کہ جاکر بیٹے کو تلاش کرو کہ وہ کہاں ہے اور کیا چاہتا ہے؟ ‘ ادھر جاسوس نکلے ‘ رات پڑگئی‘ادھر بیٹا ہرن کو تلاش کرتا رہا‘ اب اس نے کہیںرات گزارنی تھی‘ رات گزارنے کیلئے اس نے کوئی تدبیر سوچنی تھی کہ رات کیسے گزاری جائے؟ (جاری ہے)
آخرکار وہ ایک جنگل میں داخل ہوا ‘جنگل بہت گہرا تھا‘ اندھیرا تھا‘ راستہ نظر نہیں آتا تھا ‘وہ جنگل میں چلتا رہا‘ چلتا رہا بعض اوقات کسی چیز سے اس کا گھوڑا ٹکرا جاتا تھا آخرکار اسے دور ایک چھوٹی سی روشنی نظر آئی حیران ہواکہ وہ روشنی کیا ہے وہ اس روشنی کی تلاش میں جب آگے بڑھا تو اس نے دیکھا کہ ایک جھونپڑی ہے گھوڑے سے اترا گھوڑا باندھا اور زور سے آواز دی اندر سے کمزور سی آواز آئی کہ اندر آجاؤ وہ جھونپڑی کے اندر آگیا اور جھونپڑی کے اندر آکر اس نے دیکھا تو ایک بوڑھے بزرگ تھے‘ جو اس جھونپڑی میں بیٹھے ہیں اور ہاتھ میں تسبیح لیے کچھ ذکر کررہے ہیں‘ وہ بزرگوں کے پاس جاکر خاموشی سے بیٹھ گیا بزرگ آنکھیں بند کرکے جیسے رات کا ذکر کررہے ہیں تسبیح پڑھ رہے تھے‘ جب وہ تسبیح اور ذکر کررہے تھے تو اس وقت خاموش بیٹھا رہا اس نے کوئی ان سے گفتگو نہیں کی‘ تھوڑی ہیدیر کے بعد بزرگوں نے تسبیح منہ پر پھیری اور اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فوراً اس کا نام لیا اور سارا واقعہ ہرن کی تلاش اور اس کےقتل کا بتادیا یہ حیرت سے اسے دیکھتا رہا کہ یہ کیا باتیں ہورہی ہیں؟
اب انہیں دیکھتے دیکھتے اسے حیرت انگیز طور پر احساس ہوا کہ یہ بزرگ تومیرے دل کی ساری باتیں جانتے ہیں اور میری بپھتا اور کہانی کو سمجھتے ہیں اب اس نے اگلا سوال کیا کہ یاشیخ یہ بتائیے کہ جب میرا باپ میرا مخالف ہے اور ولی عہد بھی ہوں‘ ظلم ستم گناہ بدکاری لوگوں کے ساتھ چھینا جھپٹی یہ میں برداشت نہیں کرسکتا ان حالات میں کیا کروں؟ بزرگ نے سرگوشی کے انداز میں اس جوان کو کچھ نصیحتیں کیں اور ایک کونے کی طرف اشارہ کیا جب اس کونے کی طرف یہ بڑھا تو وہاں تازہ گرم اور لاجواب کھانا پڑا ہوا تھا یہ سارے دن کابھوکا تھا یہ کھانا کھارہا تھا اور خیال کررہا تھا کہ پتہ نہیں مجھے سارا کھانا کھانا چاہیے یا نہیں‘ بزرگ نے فرمایا: یہ سارا کھانا تمہارے لیے ہی ہے۔ تم کھاجاؤ اور وہ بچھونا تمہارے لیے بچھا ہوا ہے تم سو جاؤ وہاں تمہاری سواری کا کھانا بھی گھوڑے کے کھانے کا انتظام بھی ہم نے کردیا ہے وہ بہت حیران ہوا کہ میرے ساتھ کیا ہوا‘ میں اس بندر جن کیباتیں سن رہاتھا اس نے بنگال کے بادشاہ کی بات سنائی مجھے حیرت ہورہی تھی اور اھساس ہورہا تھا یہ واقعات کتنے دلچسپ بھی ہیں اور عبرت انگیز بھی ہیں کہ ان واقعات کے اندر کتنی داستانیں کہانیاں اور انجام پوشیدہ ہیں میں حیرت انگیزطورپر ساری داستان سن رہا تھا سارے واقعات سن رہا تھا اور مجھے ایک انوکھا نظام سامنے بالکل سامنے نظر آرہا تھا آخرکار وہ شہزادہ سو گیا اور تھوڑی دیر میں گہری نیند میں چلا گیا صبح اسے احساس ہی نہ ہوا اور بہت دیر سے اٹھا اسے اپنے دیر سے اٹھنے کا بہت احساس ہوا اور بہت ندامت ہوئی وہ دیر سے اٹھا‘ دیکھا تو کھانا خوشبودار کھانا بہترین اور جنگل کی جڑی بوٹیوں کے مختلف قہوہ اس کا انتظار کررہے تھے وہ حیران ہوا‘ اس نے کھانا کھایا‘ بزرگوں نے کوئی بات نہ کہی‘ اس نے ہاتھ منہ دھوئے کھانا کھایا ساتھ ہی چشمہ بہہ رہا تھا پانی پیا‘ ترو تازہ ہوا ‘ کھانا کھانے کے بعد دیکھا تو اس کا گھوڑا پانی پی کر گھاس کھا کر صحت مند تھا‘ اس کے سامنے گھاس اور پانی پڑا ہوا تھا وہ اس بات پر حیران ہوا اور بہت حیرت ہوئی یہ ساری باتیں وہ دیکھ رہا تھا اور ان ساری باتوں کو سن بھی رہا تھا آخرکار اس نے اس بزرگ سے اجازت مانگی اور ایک سوال کیا کہ کیا میرا ہرن مجھے مل سکتا جس ہرن کے بارے میں والد نے مجھے کہا تھا اس نے کہا بیٹا تم ہرن کو چھوڑ کر اپنے محل میں چلے جاؤ تمہارا باپ تمہارا انتظار کررہا ہے دیکھو آئندہ کے لیے خیال کرنا یہ جو بھی لوگ تھے یہ ڈاکو اور شریر لوگ نہیں تھے یہ دراصل تمہارے والد کے بھیجے ہوئے وہ لوگ تھے اور تمہارا والد تمہیں اپنی راہوں سے ہٹانا چاہتا ہے ایک دم اس کو جھٹکا لگا یہ کیسے ممکن ہے؟ اس بزرگ کی کسی بات کو وہ جھٹلا بھی نہیں سکتا تھا لیکن اسے یقین بھی نہیں آرہا تھا کہ کیا کوئی والد بھی ایسا ہوسکتا ہے؟ جو اپنے بیٹے کو قتل کرادے اور اس اپنی راہوں سےہٹا دے؟ اور اس بزرگ نے سرگوشی کے انداز میں اس شہزادے کو مزید احتیاطی تدابیر بتائیں اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ ایک جڑی بوٹی کی پہچان کروا دی جو ہرجگہمل جاتی ہے اور کہا کہ دیکھو اب اگلا وار تمہارے اوپر کھانے میں زہر ملا کر دینے کا ہوسکتا ہے بیٹا یہ روزانہ جڑی بوٹی کھالیا کرو تمہارے اوپر کوئی زہر اثر نہیں کرے گا اگر زہر آئے گی بھی سہی تو قے ہوکر نکل جائے گی اور اس بوٹی کو کبھی نہ چھوڑنا اور کچھ بوٹی کے پتے اس بزرگ نے اس شہزادے کو کھلا بھی دئیے بندر جن کی باتیں قبرستان میں میں بھی سن رہا تھا اور میرے ساتھ وہ میرے مسلمان جنات بھی بیٹھے ہوئے تھے جو ذکر اور تسبیحات کررہے تھے رات کی تاریکی تھی قبرستان کا سناٹا تھا اور میں اس بندر جن کی باتیں بہت غور اور دلچسپی سے سنے جارہا تھا وہ بندر جن کہنے لگا وہ شہزادہ یہ ساری ہدایات اور بوٹی کے پتے ساتھ لے کر واپس ہوا اور اس کا گھوڑا دوڑ رہا تھا اور اس کا رخ اس کے محل کی طرف تھا جب محل کی طرف پہنچا اور اپنے باپ سے ملا تو اسے باپ بہت ہمدردی سے ملا کہ بیٹا تو رات کہاں تھا میں بہت پریشان تھا؟ اور یہ تیرا جسم کپڑے لباس اور زخم بیٹے نے ساری کہانی سنائی باپ نے ایسے محسوس کروایا کہ جیسے اسے کسی چیز کا پتہ ہی نہیں اور بہت زیادہ دکھ رنج اور ہمدردی کا اظہار کیا۔ وہ دکھ درد اور رنج کی باتیں سنتا رہا دکھ درد اور رنج کے واقعات اس کا والد وہ سنتا رہا اس نے محسوس کیا کہ والد کی آنکھوں میں وہ محبت وہ شفقت نہیں ہے جو پہلے تھی۔ اب والد کی آنکھوں میں بھی انتقام کی آگ ہے‘ تو اب چیز نہیں ہے جو پہلے تھی‘ اب وہ یہ سوچتا رہا‘ آخرکار والد نے اسے کہا کہ اب تم بیٹا اپنے کمرے میں جاؤ جہاں۔۔۔ والد نے پہلے سے تدبیر یہ سوچی تھی کہ ایسی مرہم پہلے سے تیار کرکے رکھی ہوئی تھی کہ دوا کے اندر زہر ملی ہوئی تھی تاکہ زخموں کی دوا جسم پر لگائیں اور وہ زہر اس دوا کے ذریعے جسم پر اثر کرجائے اور یہ ختم ہوجائے‘ اچانک جب اس کے والد نے دوا کی بات کہی تو اسے اچانک اس بزرگ کی بات یاد آئی کہ دیکھو اگلا وار تم پر زہر کا ہوگا اس نے خیال کیا پہلے میں اس جڑی بوٹی کے پتے کھالوں اس نے آتے ہی اپنے خاص ذاتی غلام سے کہا کہ پتے پہلے سے اکٹھے کرکے لاؤ وہ اپنے شاہی کمرے م یں گیا اور چپکے سے اس نے بہت سے پتے کھالیے اور باقی پتے سنبھال کر رکھ لیے اور معتمد قابل اعتماد غلام کو کہا کہ وہ تروتازہ پتے اکثر لایا کرے اور رکھا کرے اور مجھے بار بار کھلاتا رہا کرے۔ اب اس نے وہ پتے سارے کھالیے اور کھانے کے بعد اس نے پٹی باندھنے والے جراح اور زخموں کا علاج کرنے والے جو کہ شاہی محل میں موجود ہوتے ہیں‘ آخر وہ جراح آگئے اس کا علاج شروع کیا‘ زخموں کو صاف کیا‘ پٹی‘ ان میں ایک جراح ایسا تھا جس کی آنکھوں میں شیطانیت تھی‘ کینہ اور بغز ہے شہزادہ ولی عہد عاقل بالغ سمجھدار تھا وہ سمجھ گیا کہ یہ وہ شخص ہے جو میرے باپ کے ساتھ ملا ہوا ہے اور میرا باپ نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے مجھے زہر کے ذریعے قتل کرانے کیلئے‘ شہزادہ مطمئن تھا‘ تھوڑی دیر ہوئی اس نے زخموں پر پٹی لگائی‘ دوائی لگائی‘ دوائی کے تھوڑی ہی دیر کے بعد جب وہ پٹیاں وغیرہ باندھ کر چلے گئے تو شہزادہ کو قے کی کیفیت ہوئی‘ کمرے سے باہر پھولوں کی کیاری تھی اس نے قے م یں واضح زہر محسوس ہوا‘ اب اس کے بعد اس کے پاس فوراً یہی حل تھا وہ فوراً وہ پتے کھائے‘ وہ اپنے شاہی کمرے میں گیا اور اس نے جی بھر کر وہ پتے پھر کھالیے‘ اور اسے اپنے بزرگ کی باتوں کا احساس ہوا کہ بزرگ نے کہا تھا کہ تم پر اگلا وار زہر کا ہوگا‘ اب وہ روزانہ اسی جڑی بوٹی کے پتے کھاتا رہا شاہی کھانا بھی کھاتا رہا چند دنوں کے بعد ا سنے محسوس کیا کہ اس کا باپ الجھا الجھا سا ہے کیونکہ زہر دینے والوں نے کہا تھا کہ بس پٹی لگاتے ہی تھوڑی دیر کے بعد اس کا جسم تڑپے بغیر ساکت ہوجائے گا اور یہ مر جائے گا اور ہم کہیں گے کہ یہ شکار پر گیا تھا وہاں کے زخموں کی وجہ سے اور خون بہنے کی وجہ سے یہ مر گیا۔ ہم پوری مملکت میں موت کا اعلان کردیں گے۔ اب اگلے چند دنوں کے بعد ا سنے اپنے باپ کے چہرے پر الجھاؤ تناؤ کھچاؤ اور گھبراہٹ محسوس کی اور اس نے محسوس کیا کہ اس کا باپ کچھ الجھا ہوا ہے اس کا چہرہ تنا ہوا ہے وہ حیران ہوا کہ یہ اس کے ساتھ کیا ہے اب اس کی حیرت بڑھتی چلی گئی اب بادشاہ نے اپنے اعتماد رکھنے والے وزیروں کو بلایا کہ میں نے تو اس کو زہر دیا تھا زہر نے اثر کیوں نہیں کیا؟ اب وہ سب حیران آخرکار اس نے کہا کہ اس کے پاس زہر کا کوئی تریاق ہے اور کوئی ایسی چیز ہے جس کی وجہ سے زہر اس پر اثر نہیں کررہی اس کو بلایا اس سے حال احوال بادشاہ نے لیا اور باتوں ہی باتوں میں کریدا شہزادہ نے کچھ بھی نہ بتایا انہی وزیروں اور مشیروں میں ایک شخص ایسا تھا جو شہزادہ کا اعتماد رکھتا اس نے ولی عہد کو یہ ساری بات بتائی کہ کسی طرح آپ کو ان مرہموں میں زخموں کےعلاج میں زہردیا گیا اور ایسا خطرناک زہر دیا گیا کہ جس خطرناک زہر کی وجہ سے آپ کا نقصان ہوسکتا تھااب وہ حیران ہوئے شہزادہ حیران ہوا کہ باپ میری موت کو کیوں چاہتا ہے؟
لیکن اسے یہ بھی پتہ تھا کہ موت کو چاہنے کی بنیادی وجہ باپ میری واعظ و نصیحت کو برا سمجھتا ہے اور باپ چاہتا ہے کہ میں ختم ہوجاؤں قتل ہوجاؤں برباد ہوجاؤں اور باپ چاہتا ہے کہ میں ختم ہوجاؤں۔
بندر جن یہ باتیں سنارہا تھا میں سوچنے لگا کہ اس کے پاس صدیوں کے واقعات ہیں‘ صدیوں کے قصے ہیں‘ دن بیت جائیں راتیں بیت جائیں پھر صبح اور شام آجائے بندر جن کے واقعات ختم نہیںہ وں گے اور بندر جن کی کہانیاں کبھی ختم نہیں ہوں گی میں اس کے واقعات اور مشاہدات سن رہا تھا۔ آخرکار در میان میں اسے روکتے ہوئے یہ بات کہی کہ اس قصے کو مختصر کریں اور بتائیں پھر کیا ہوا؟
کہنے لگے: ہوا یہ کہ اور بہت دلچسپ بات ہے کہ ایک دفعہ اس نے پھر بیٹے کوکھانے میں زہر دیا‘ قدرت کا نظام ایسے بنا کہ جس کھانے میں زہر دیا تھا اور وہ زہر دینے والے نے کھانا ولی عہد کے سامنے رکھنا تھا وہ ولی عہد نے وہ کھانا اپنے باپ کے سامنے رکھا ولی عہد کو خود معلوم نہیں تھا اور بادشاہ ک وبھی علم نہیں تھا کہ آج اس کھانے مین زہر ملا ہوا ہے‘ اچانک ماں نے بیٹے کو بلایا اور بیٹا اٹھ کر چلا گیا باپ نے کھانا کھایا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ تڑپے بغیر مر گیا اور شہزادہ سمجھ گیا کہ جو زہرمجھے دینا تھا وہ زہر باپ پر اثر کرگیا اور باپ کا سخت نقصان ہوا اور باپ مرگیا یوں ایک عبرت اور ظلم کی کہانی ختم ہوئی اور عایا نے ایک سکھ کا سانس لیا اور احساس کیا کہ ایک ایسے شخص اور بادشاہ کی حکومت اور مملکت آئی کہ جس کے ذریعے انسانیت کو سکون راحت اور خیر ملی اور جس کے ذریعے سے انسانیت کو نفع اور عافیت کا نظام ملا۔ انسانیت کو بہت دکھ پہنچا رہا تھا وہ ظالم اور اب سکھ ملا۔
بندر جن نے اوربہت واقعات سنائے جو اس دفعہ اس جن سے مجھے سبق ملا وہ یہ ملا کہ قبرستان میں باقاعدہ جنات ہوتے ہیں‘ جو لوگوں کو فسق فجور گناہ بدکاری کی طرف مائل کرتے ہیں اور جو لوگوں کو گناہوں کی طرف اکساتے ہیں وہ قبرستانی جن ہی جن ہی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگی میں پریشانی بے سکونی مشکلات مسائل اور دکھ اور تکالیف ہوتی ہیں لوگ اسی رپیشانی مشکلات دکھ تکالیف میں اپنی نسلوں کو برباد کربیٹھتے ہیں اور ان کی نسلیں برباد ہوجاتی ہیں اس لیے بعض کتب میں یہ واقعات آئے ہیں کہ قبرستان میں جب جائیں تو جنات سے حفاظت کے اعمال ضرور کریں اور بڑوں سے بات سنی ہے کہ قبرستان میں لوگوں کوجن چپک جاتے ہیں اس کی بنیادی وجہ وہ شریر اور شیطانی جنات ہیں میں نے اس بندر جن سے ایک بات پوچھی کہ یہ بتائیں جو لوگ مسنون دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں کیا آپ انہیں بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں اس نے حیرت اور حسرت سے میری بات کا جواب دیا کہنے لگا: ان کو چاہتے ہوئے بھی ہم ان کا کچھ نہیں کرسکتے اور چاہتے ہوئے بھی ہم انہیں نقصان نہیں دے سکتے اس کی وجہ ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ ایک حفاظت کا نظام ہوتا ہے اور وہ حفاظت کا نظام ہم بغیر چاہے بھی کچھ نہیں کرسکتے اور اس حفاظت کے نظام کو ہم توڑ نہیں سکتے جو لوگ مسنون دعاؤں کا اہتمام کرتے ہیں مسنون دعاؤں کو پڑھتے ہیں ان کا ہم کچھ نہیں بگاڑ سکتے وہ لوگ محفوظ رہتےہیں اور سدا حفاظت میں رہتے ہیں مجھے حیرت ہوئی‘ کہ حفاظت کے اعمال کی کیا برکات ہیں‘ یہ خطرناک جنات شعلوں سے بنے ہوئے بھی انہیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ میں نے انہیں کہا کہ سب سے زیادہ کون سی چیز ہے جس سے آپ ڈرتے ہیں‘ کون سی تسبیح ہے‘ کون سا منتر ہے‘ کون سا وظیفہ ہے کہنے لگے: اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ہمیں بہت ڈراتا ہے اس لفظ سے ہم بہت خوف زدہ ہوتےہیں اور بہت خوف کھاتے ہیں‘ اور اس لفظ کی وجہ سے ہم تھرتھرا جاتے ہیں ہم خود آگ سے بنے ہوئے ہیں لیکن اس لفظ کی جو طاقت اور ہیبت اور قوت اور قدرت ہے ہمییشہ ڈراتی ہےا ور ہمیشہ خوفزدہ کرتی ہے مجھے ان کی بات سن کر بہت حیرت ہوئی کہ ان کی بات میں کیا طاقت ہے کیا تاثیر ہے کیا وزن ہے اور مجھے ایک احساس ہوا کہ یہ لفظ جسے ہم خدانخواستہ کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے یہ لفظ جنات کے ہاں کتنا بھاری ہے اور ہماری ہاں کتنا ہلکا ہے میں اس بندر جن کی بات سن رہا تھا میں نے دل ہی دل میں سانس روک کر اعوذ باللہ من شیطان الرجیم پڑھا تو ایک دم کہنے لگا یہ کیا کیا آپنے؟ میں نے کہا کیا ہوا؟ کہنے لگا: آپ نےوہ چیز پڑھی ہےجو میں نے ابھی بتائی ہے۔ میں ایک دم ہل کر رہ گیا اورایک دم ایسے ہوا کہ میں ختم ہوجاؤں گا مجھے آگ لگ جائے گی آپ ایسا نہ کریں‘ یہ نہ پڑھیں مجھے احساس ہوا کہ اس نے جو کچھ کہا ٹھیک کہا تھا‘ کیونکہ میں نے نقد اس پر آزمایا تھا اور اس بندر جن پر نقد یہ چیز میں نے آزمائی تھی‘ میں ان کی باتوں سے بہت متاثر ہوا اور مجھے اس دفعہ جو جن ملا‘ خوب ملا اس نے مجھے بہت سبق دیا‘ میں نے اس سے دوستی اس لیے کی تھی وہ جن میرے قریب آئے گا پھر میں اس کے ایمان اسلام اورہدایت کا اللہ کے خزانوں سے ذریعہ بنواؤں گا کہ اللہ اس کا دل بدل دے‘ کیونکہ بڑا سردار تھا اس کی بے بہا رعایا جنات تھی‘ میری دوستی اس سے چل رہی ہے‘ میری کوشش ہے کہ اس کو کلمے والی دولت نصیبہوجائے اور ان شاء اللہ ہوگی۔ 

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 027 reviews.