Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

ریشان اور بدحال گھرانوں کے خطوط

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2020ء

چھوٹی بیٹی کی زیادہ فکر
میری بڑی بہن کو پورا خاندان پسند کرتا ہے۔ اس کے رشتے بھی بہت آرہے ہیں۔ ایک روز میں نے امی کو کہتے سنا کہ مجھے چھوٹی بیٹی کی زیادہ فکر ہے۔ یہ الفاظ میرے کانوں میں کیوں پڑے کیونکہ یہ سننے کے بعد مجھے اپنا آپ اچھا نہیں لگا۔ اس دن سے خود کو گھر میں بوجھ سمجھنے لگی۔ آخر مجھ میں ایسا کیا ہے کہ امی میری فکر زیادہ کریں۔کیا میں اتنی بری ہوں۔ (ش، کراچی)
مشورہ:زیادہ فکر وہی لوگ کرتے ہیں جو محبت کرتے ہیں۔ والدہ نے کسی برائی یا بوجھ سمجھ کر ایسا نہیں کہا ہوگا بلکہ وہ تو بڑی بہن سے زیادہ آپ کا خیال کررہی ہیں حالانکہ آپ چھوٹی ہیں۔ ان کے الفاظ کو مثبت لیں، ان میں آپ کی خیر خواہی اور محبت چھپی ہے۔ اپنے الفاظ، حیالات اور عمل سے والدہ سے اظہار محبت کریں تاکہ اپنی ذات کی ناپسندیدگی سے توجہ ہٹ کر خدمت کے خوشگوار احساس میں بدل جائے۔
مجھے ناخن کاٹنے کی عادت ہے!
مجھے دانتوں سے ناخن کاٹنے کی عادت ہے۔ اب کالج میں آگیا ہوں مگر یہ عادت برقرار ہے۔ ناخن اتنے چھوٹے ہوگئے ہیں کہ انگلیاں بدنما لگتی ہیں۔ گھر میں فارغ بیٹھا ہوتا ہوں تو ناخن کترتا رہتا ہوں۔ پہلے تو سب ہی ٹوکتے تھے اب کوئی کچھ نہیں کہتا مگر اب مجھے اپنی یہ عادت اچھی نہیں لگتی۔ خاص طور پر کچھ سوچتے ہوئے بغیر ارادے کے ناخن کترنے لگتا ہوں۔ (کاشف‘ پشاور)
مشورہ:عام طور پر یہ عادت بچوں میں ہوتی ہے جو کہ گہرے اضطراب اور اعصابی تنائو کو ظاہر کرتی ہے۔ ان کے ذہنوں میں والدین، بہن ، بھائی، دوست احباب یا اساتذہ کے خلاف غم و غصے کے دبے ہوئے جذبات پائے جاتے ہیں لہٰذا بڑے ہو کر بھی ایسے لوگ عدم تحفظ یا خطرات کے احساس اور ناخوشی، بے زاری وغیرہ کا اظہار اسی طرح کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ اس عادت کو ترک کرنے کے لیے ارادے کی مضبوطی سے مدد لینی ہوگی۔ ہاتھوں کو لکھنے میں مصروف رکھیں۔ کمپیوٹر کا استعمال کریں۔ اسائنٹمنٹ وغیرہ ٹائپ کر کے تیار کریں تاکہ دونوں ہاتھ مصروف رہیں اور دانتوں کی طرف نہ بڑھیں۔ جس قدر ارادہ مضبوط ہوگا اتنی ہی جلد یہ عادت ختم ہو جائے گی۔
بیٹے کے ساتھ ضرور کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے!
اس وقت میرا بیٹا پانچ سال کا تھا مجھے اس کی شرارت پر غصہ آتا اور میں اس کو تھپڑ مار کر ایک کونے میں بٹھا دیتا۔ وہ نظر بچا کر کسی بھی وقت کونے سے نکل کر بھاگ جاتا۔ میں دیکھتا کہ کونا خالی ہے تو مسکرا دیتا۔ اب وہ پندرہ سال کا ہے۔ اگر اسے سست، کاہل یا نکما کہہ دوں تو منہ بنالیتا ہے، کتنے گھنٹے تک بات نہیں کرتا حالانکہ میری اس سے دوستی ہے۔ اس کے ساتھ ضرور کوئی نفسیاتی مسئلہ ہے۔ (خرم شہباز‘ لاہور)
مشورہ:ٹین ایج بچوں میں نفسیاتی مسئلہ نہیں بلکہ نفسیاتی مسائل ہوتے ہیں۔ وہ بچپن کی حدود سے نکل کر جوانی کی منزلوں میں قدم رکھتے ہیں۔ ایسے موقع پر والدین کو چاہیے کہ ان کا خاص خیال رکھیں۔ تھپڑ کی تکلیف سے زیادہ اثر منفی الفاظ کا ہوتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بچے کو دوبارہ تھپڑ مارنا شروع کردیں بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کو سخت الفاظ نہ کہیں۔ وہ بری باتیں جو غصے میں کہی جائیں عرصہ گزرنے کے بعد بھی بچوں کو یاد رہتی ہیں، خاص طور پر اپنے والدین کے الفاظ کو کبھی اپنے ذہن سے نہیں نکال سکتے۔
دراصل چھوٹی بہن کو خود پر اعتماد نہیں!
میری چھوٹی بہن پڑھنے میں بہت اچھی ہے۔ گھر میں سب ہی کی رائے ہے کہ اس کو اس بار چھٹی جماعت کا امتحان پاس کرنے کے بعد ساتویں کے بجائے آٹھویں جماعت میں پروموٹ کروادیں مگر وہ اپنی ذہانت کا یقین نہیں کرتی۔ ڈرتی ہے کہ مشکل ہوگی۔ دراصل اس کو خود پر اعتماد نہیں۔ (زینت، لاہور)
مشورہ:بچی اپنی ذہنی صلاحیتوں کے بارے میں دوسروں سے زیادہ واقف ہے، اس کا ڈر فطری ہے نفسیاتی نہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اس کو چھٹی کے بعد ساتویں جماعت پڑھنے کا موقع دیا جائے۔ ماہرین تعلیم کے مطابق بچوں کو آسان سے مشکل کی طرف لایا جاتا ہے۔ اس کی مثال یہ بھی ہے کہ ایک ایک سیڑھی چڑھنے والے پوری سیڑھیاں آسانی سے چڑھ لیتے ہیں، اگر ایک ساتھ کئی سیڑھیاں چڑھنا چاہیں تو گرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
تنگ گلیاں
اونچی عمارات اور تنگ و تاریک گلیاں مجھے عجیب سی گھنٹ کا احساس دلاتی ہیں۔ میری ایک بہت گہری دوست ہے وہ ایسی ہی جگہ رہتی ہے۔ میں اس کے گھر کبھی نہیں گئی۔ وہ ہمیشہ میرے گھر آتی ہے۔ اب ایک بڑا مسئلہ آن کھڑا ہوا، جس لڑکے سے میری شادی ہورہی ہے وہ یورپ میں پڑھ رہا ہے لیکن اس کا گھر ایسی ہی جگہ پر ہے۔ والدین اس رشتے سے بے حد خوش ہیں مگر میں پہلے دن سے پریشان ہوں۔ کچھ کہہ بھی نہیں سکتی کہ واقعی لڑکا تو اچھا ہے۔ میری دوست کہتی تمہارے ساتھ نفسیاتی مسئلہ ہے، تم خود کو ٹھیک کرو جبکہ بڑی بہن کا کہنا ہے کہ تمہیں یہاں نہیں رہنا تم باہر رہوگی۔ میں سوچتی ہوں کبھی تو گھر بھی آنا ہوگا۔ (علینہ، لاہور)
کسی ناگوار تجربے، ناول یا مووی نے تنگ گلیوں اور اونچی عمارات کے حوالے سے دماغ میں ناپسندیدگی کا احساس پیدا کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورتحال میں گھٹن محسوس ہوتی ہے۔ یہ بڑا مسئلہ جس سے پریشان ہیں اس کا حل آسان ہے۔ اپنی دوست کے گھر جایا کریں، اس کے گھر کے لیے گلیوں سے گزرتے ہوئے ہونے والی گھبراہٹ پر قابو پائیں اور اپنی توجہ کا مرکز اس کی والدہ، بہنوں وغیرہ سے ملاقات کو بنائیں۔ اِدھر اُدھر کی باتیں کریں، دیکھیں کہ یہاں لوگ رہتےہیں۔ جب کبھی ملک سے باہر رہنے کا موقع ملے گا تو اپنے ملک کی یہ تنگ گلیاں بھی یاد آئیں گی۔
شوہر سے جھک
کئی ماہ بعد مجھے معلوم ہوا کہ شوہر نے کسی لڑکی سے نکاح کرلیا ہے۔ وہ ان کو ہسپتال میں ملی تھی۔ ان کی والدہ بیمار تھیں، لڑکی نے ان کا بہت خیال رکھا، وہ نرس ہے، سنا ہے اب بھی کام کررہی ہے، مجھے بھی جاب کرنے کا شوق تھا۔ میں شادی سے پہلے سکول میں پڑھاتی تھی۔ انہوں نے مجھ سے بھی محبت کی شادی کی ہے۔ سب سے پہلے میری جاب چھڑوائی، ویسے مجھے ابھی تک ان کے رویے سے معلوم نہ ہوسکا۔ اخراجات میں بھی خاص مسئلہ نہیں ہوا۔ ایک جھجک ہے جس کی بنا پر میں ان سے اس بارے میں کچھ پوچھ نہیں رہی۔ دل کہتا ہے کہ یہ بات جھوٹی ہو۔ میری دو بیٹیاں ہیں کوئی انتہائی قدم بھی نہیں اٹھا سکتی کہ بچوں کا کیا ہوگا۔ (ن۔میرپور)
اگر شوہر نے یہ بات آپ سے چھپائی ہے تو آپ بھی ان پر ظاہر نہ کریں، جب تک سکون سے معاملات چل رہے ہیں اچھا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو کسی نے غلط معلومات فراہم کی ہوں۔ ان کا رویہ مناسب ہے، اخراجات میں مسئلہ نہیں ہوا تو بہت ممکن ہے کہ نکاح کی خبر غلط ہو۔ آپ سے جاب چھڑوانی کوئی بری بات نہیں تھی، ورنہ گھر اور باہر دونوں جگہ کی ذمہ داریاں آجاتیں۔ مثبت انداز میں سوچنے کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی حقیقت ذہنی اور جذباتی مسائل پیدا کرنے کا سبب نہ بن سکے۔
دل کانپتا ہے
مجھے اپنی کزن کو یونیورسٹی پہنچاتے ہوئے آفس جانا ہوتا ۔جب حالات خراب ہوتے ہیں میں چھٹی کرلیتا ہوں حالانکہ چھٹیوں کا اثر میری جاب پر پڑرہا ہے مگر میں ڈرتا ہوں۔ کہیں دھماکہ ہوا یا راسےت کی کسی جگہ سے فائرنگ کی خبر سن لوں تو دل کانپتا ہے پھر میں وہاں سے نہیں گزر سکتا۔ لیکن کزن کو خوف نہیں ہوتا، وہ اکیلی چلی جاتی ہے۔ گھر والے کہتے ہیں دیکھو وہ لڑکی ہو کر نہیں ڈرتی اور تم مرد ہوکر گھبراتے ہو۔ یہ طعنہ بھی برداشت نہیں ہوتا۔ معمولی سی خبر میرے لیے مشکل پیدا کردیتی ہے۔ گھر سے ہر روز سب ہی کو جانا ہوتا ہے صرف برے حالات کا سن کر میں رکتا ہوں۔ شام کو معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہی تھا اور دفتر میں بھی لوگ آئے تھے۔ (نوید علی، کراچی)
حقیقی خطرے میں خوف زدہ ہونا فطری ہے، ایسے موقع پر بہادر بننے والے بے وقوف ہوتے ہیں کیونکہ وہ جان بوجھ کر خود کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ خراب حالات میں ایک لڑکی کا تنہا جانا اور خاص طور پر فائرنگ ہوتی ہوئی جگہ سے گزرنا خطرہ ہے۔ اگر خراب حالات کی افواہ ہو اور راستے ٹھیک ہوں تب چھٹی کرنا اور گھر پر رہنا اپنا نقصان کرنا ہے۔ آپ اپنے خوف کو پہچانیں کہ کب پریشانی ہوتی ہے اور کیا اس وقت واقعی حالات خراب ہوتے ہیں یا صرف آپ محسوس کرتے ہیں۔ خطرے کے بغیر خطرناک صورتحال کا تصور کرکے گھبراہٹ ہو جانی ذہن کی پیداوار ہے۔
زیادہ محنت
مجھے نفسیات کے مضمون سے بہت دلچسپی ہے۔ جب یونیورسٹی میں داخلہ لینے گیا تو وہاں دیکھا اس شعبہ میں لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں۔ واپس آگیا، دوبارہ چکر لگایا تو معلوم ہوا کہ دو لڑکے بھی ہیں۔ سوچا میں بھی داخلہ لے لوں۔ کوئی کہتا ہے ایم بی اے کرو۔ میرا ایک کزن سی اے کررہا ہے، مجھے ان مضامین میں دلچسپی نہیں اور یہ مشکل بھی بہت لگتے ہیں۔ داخلہ لے لوں اور پاس نہ ہوں تو بھی ٹھیک نہیں۔ بیرون ملک جانے کا موقع بھی ہے۔ شاید یہ موقع دوبارہ ملے نہ ملے۔ آج کل دماغ پر سوچوں اور خیالوں حکا تسلط ہے۔ کسی فیصلے پر نہیں پہنچ رہا۔ ہر دوست اپنی فیلڈ کی تعریف کرتا ہے۔ (فہد، کوئٹہ)
نفسیات کے مضمون سے دلچسپی بہت لوگوں کو ہوتی ہے لیکن اس کا مطالعہ کم لوگ کرتے ہیں۔ آپ کی دلچسپی اتنی زیادہ ہے کہ اس کا شعبہ بھی دیکھ آئے تو اب داخلہ لینے میں دیر نہ کریں۔ اس مضمون کے ماہرین کی کمی ہے اور خاص طور پر لڑکے ماہر نفسیات کم ہیں جبکہ ڈاکٹروں میں سائیکا ٹرسٹ بننے کا رحجان کسی حد تک نظر آتا ہے۔ یہ بات تو آپ کے حق میں جاتی ہے کہ ماہرین نفسیات کم ہیں۔ بیرون ملک اگر آپ امریکا، کینیڈا یا یورپ جاتے ہیں تو وہاں ماہر نفسیات بہت مصروف ملیں گے اور آپ بھی مزید تعلیم حاصل کرکے اس پیشے سے منسلک ہوسکیں گے۔ زیادہ محنت کرنے والے زیادہ ترقی حاصل کرتے ہیں۔
محرومی اور احساسِ محرومی
میں نے ایک نجی یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ یہاں اکثر لڑکوں کے پاس مہنگی گاڑیاں ہیں، قیمتی موبائل فون ہیں، کئی تونشہ کرتے ہیں۔ اس کی بے فکری اور لاابالی پن کو دیکھ کر حسرت ہوتی ہے کہ مجھے تو اپنی فیس کے لیے ہی کتنی بار کہنا پڑتا ہے۔گھر والوں کو یہ رقم زیادہ لگتی ہے۔ احساس محرومی ہوتا ہے کہ میں ان چیزوں سے محروم کیوں ہوں؟ (جواد، ملتان)
محرومی اور احساس محرومی میں فرق ہے۔ شاید ہی ایسا کوئی فرد ہوگا جو کبھی نہ کبھی قیمتی چیزوں سے محروم ہونے کے بارے میں اپنے دل میںخیال نہ لاتا ہو۔ کم یا زیادہ، چھوٹا یا بڑا، عارضی یا دائمی اس خیال کا شکار ہونا فطری سی بات ہے۔ اس کے ساتھ ہی خود مثبت انداز میں سمجھانا اور حاصل نعمتوں پر شکر کرنا سکون قلب و ذہن کا سبب بنتا ہے۔ آپ نے احساس محرومی کا ذکر کیا۔ یہ وہ احساس ہے جو جسم تو جسم روح کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور اس کے لیے کسی مادی شے سے محروم ہونا بھی ضروری نہیں، گھر والوں کی محبت کا اندازہ لگائیں کہ وہ مشکلات کے باوجود آپ کی فیس دے رہے ہیں۔ مادی چیزوں سے توجہ ہٹا کر تعلیم حاصل کریں۔ وقت کے ساتھ سب کچھ حاصل ہوجاتا ہے۔ 

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 552 reviews.