حالانکہ پہلے میں بالکل ٹھیک تھا‘ نارمل پیدا ہوا‘ نارمل تھا اب بھی اندرونی لحاظ سے طبی لحاظ سے نارمل ہوں مگر ظاہری طور پر ایسا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اب میں گھر سے باہر نہیں نکل سکتا‘ ہر کوئی مجھ پر ہنستا ہے‘ مذاق اڑاتا ہے‘ کوئی زنانی‘ کوئی ہجیڑا‘ کوئی کھسرا کہتا ہے۔
محترم حضرت حکیم صاحب السلام علیکم! تقریباً تین سال پہلے مجھ سے ایک گناہ ہوا یا غلطی ہوئی‘ میں نے آئندہ نہ کرنے کیلئے یہ کیا کہ وضو کرکے قرآن پاک ہاتھ میں لے کر مصلیٰ پر بیٹھ کر میں نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھا اور کہا: ’’اے اللہ! میں قرآن کی قسم کھا کر تجھ سےوعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ میں یہ گناہ نہیں کروں گا اور اگر کیا تو‘ تو مجھے برباد کردینا‘ دنیا و آخرت میں مجھے رسوا کردینا‘ آخرت میں ’’جنت‘‘ سے دور کردینا۔‘‘ لیکن کچھ دن گزرنے کے بعد پھر وہی غلطی کر بیٹھا‘ کئی بار کی‘ اب پریشان ہوں کہ کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ ہر کام الٹ ہونا شروع ہوگیا ہے‘ زندگی محدود ہوکر رہ گئی ہے‘ تعلیمی سلسلہ تین سال سے زوال پذیر ہے‘ صحت دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے‘ کوئی وجہ سمجھ نہیں آرہی۔ اب دماغ اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ دو منٹ پہلے کی ہوئی بات بھول جاتا ہوں‘ کتابوں کو دیکھنے کو دل نہیں کرتا‘ بیٹھے بیٹھے رونے لگ جاتا ہوں‘ ہروقت غصہ موجود رہتا ہے‘ برداشت بالکل نہیں ہے۔ چڑچڑا ہوگیا ہوں‘ کوئی چھوٹی سی بات کردے تو کئی کئی دن جلتا کڑھتا رہتا ہوں‘ تنہا رہنا چاہتا ہوں‘ کئی بار تو ایسا ہوتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ اپنےبال نوچ لوں‘ دیواروں سے ٹکریں مار مار کر مرجاؤں۔ بی ایس سی کے امتحان سر پر ہیں اور سمجھ نہیں آرہی یہ سب کچھ کیسے ہوگا ؟ اب اگر صحت کا حال بتاؤں تو یہ ہے کہ ہڈیوں کا ڈھانچہ ہوگیا ہوں‘ سوکھ سوکھ کر کانٹا بن گیا ہوں‘ جسم میں کوئی جان باقی نہیں رہی۔ سر گنجا ہوگیا ہے‘ آنکھیں اندر کو دھنستی چلی جارہی ہیں‘ گال پچکےہوئے‘ اب تو بس لگتا ہے کہ چلتے چلتے کہیں گر گیا تو دوبارہ اٹھ نہیں پاؤں گا۔وجہ یہ ہے کہ پوشیدہ بیماریوں نے کہیں کا نہیں چھوڑا‘ روپیہپانی کی طرح بہادیا مگر ذرا برابر بھی صحت بحال نہیں ہوئی۔ایک اور شدید مسئلہ میرے ساتھ یہ شروع ہوگیا ہے کہ میرے اندر لڑکیوں والی عادتیں آنا شروع ہوگئیں ہیں‘ میرے چلنے کا انداز‘ بولنے کا انداز‘ حتیٰ کہ میری آواز بھی زنانہ ہوگئی اور اب تک ہے۔ میرا جسم سوکھ کر بالکل زنانہ ہوگیا اورتو اور میرے چہرے کے نقش آدھے مردانہ‘ آدھے زنانہ لگتے ہیں۔ حالانکہ پہلے میں بالکل ٹھیک تھا‘ نارمل پیدا ہوا‘ نارمل تھا اب بھی اندرونی لحاظ سے طبی لحاظ سے نارمل ہوں مگر ظاہری طور پر ایسا ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اب میں گھر سے باہر نہیں نکل سکتا‘ ہر کوئی مجھ پر ہنستا ہے‘ مذاق اڑاتا ہے‘ کوئی زنانی‘ کوئی ہجیڑا‘ کوئی کھسرا کہتا ہے۔ کئی بار سوچا خودکشی کرلوں‘ کوشش بھی کی مگر نہ کرسکا۔ مزید جب سے قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر کھائی ہوئی قسم توڑی ہے تب سے ہر کام الٹ ہورہا ہے‘ کوئی انہونی طاقت ہے جو بے بس کردیتی ہے‘ ہرکام الٹ ہوجاتا ہے۔ دن بدن زندگی بدتر ہوتی جارہی ہے۔ دماغ اس قدر متاثر ہوچکا ہے کہ بیٹھے بیٹھے اکثر اپنے آپ سے باتیں شروع کردیتا ہوں۔ خودبخود رونے لگتا ہوں‘ خودبخود ہنسنے لگتا ہوں‘ خودبخود بولنے لگتا ہوں۔ (پوشیدہ)
احسان فراموش کو قدرت نے عبرت کا نشان بنادیا
پیارے قارئین السلام علیکم! یہ 1987ء کا سچا واقعہ ہے۔ ملتان کے نواحی علاقے کے ایک گاؤں میں ایک بزرگ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا‘ اس کا ایک لڑکا جو پانچویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ اس نے اپنےوالد سے درخواست کی کہ جب میں پانچویں کاامتحان پاس کروں تو مجھے ایک نئی بائیسائیکل لے کر دیں گے۔ بزرگ نے اپنے بیٹے سے وعدہ کیا کہ وہ اسے بائیسائیکل ضرور لے کر دیں گے۔ وقت گزرتا گیا آخر کار لڑکے نے پانچویں کا امتحان پاس کرلیا۔ بزرگ سے اس لڑکے نے کہا بابا! میں نے امتحان پاس کرلیا ہے اب مجھے نئی سائیکل لے کر دیں۔ بزرگ اپنے بیٹے کی فرمائش پوری کرنے کیلئے ملتان چلا گیا۔ وہاں سے نئی سائیکل لے کر آرہا تھا کہ راستے میں اسے ایک نوجوان جو بہت چالاک تھا‘ اس نے بزرگ سے درخواست کی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ سائیکل پر بٹھالیں۔ بزرگ جو نہایت شریف آدمی تھے‘ انہوں نے اس نوجوان کو سائیکل پر بٹھالیا۔ نوجوان نے بزرگ سے کہا کہ آپ مجھے سائیکل چلانے دیں آپ پیچھے بیٹھ جائیں۔ بزرگ پیچھے بیٹھ گئے۔ جب بزرگ کا گاؤں آگیا تو بزرگ نے کہا کہ بیٹا اب میرا گھر آگیا ہے آپ مجھے سائیکل دو تو نوجوان صاف مکرگیا اور کہا کہ بڈھے شرم کرو‘ ایک تو میں نے تمہیں سائیکل پر بٹھاکر احسان کیا اور یہاں تک لے کر آیا‘ اب تم میرے سائیکل پر قبضہ کررہے ہو۔ نوجوان نے جب شور مچایا تو لوگ اکٹھے ہوگئے‘ نوجوان نے ایسی لگی چپٹی باتیں کیں کہ سارے لوگ اُس کی طرف ہوگئے اور بزرگ کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا۔ آخرکار پنچایت بلانے کا فیصلہ کیا گیا‘ جب پنچایت اکٹھی ہوگئی‘ پنچایت نے بزرگ اور نوجوان کی باتیں سنیں۔ نوجوان نے وہاں بھی بزرگ کو بولنے نہ دیا۔ پنچایت نے یہ فیصلہ سنایا کہ نوجوان جو سائیکل کا مالک بننے کا دعویٰ کرتا ہے قرآن پاک کی قسم اٹھائے۔ نوجوان اُسی وقت قرآن پاک کی قسم اٹھانے پر بخوشی راضی ہوگیا۔ قریب ہی ایک مسجد تھی۔ نوجوان نے وضو کیا اور مسجد میں داخل ہوگیا۔ قرآن پاک اٹھا کر باہر لایا اور پنچایت کے سامنے قرآن پاک اٹھا کر قسم کھائی کہ یہ سائیکل میرا ہے۔ پنچایت نے سائیکل نوجوان کے حوالے کردی۔ نوجوان سائیکل لے کر جانے لگا تو بزرگ کی طرف دیکھ کر تکبرانہ طریقے سے ہنسا اور سڑک کی طرف چل دیا۔ بزرگ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور وہ بے بسی سے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اب تو جو کوئی بھی بزرگ کے قریب سے جارہا تھا وہ بوڑھے کو لعن طعن کررہا تھا۔اب وہ لڑکا سڑک پر چڑھا ہی تھا کہ پیچھے سے ایک تیز رفتار ٹرک آیا اور اس نے لڑکے کو ٹکر ماری‘ سائیکل ایک طرف گر گئی اور لڑکا اچھل کر دوسری سڑک پر جاگرا اور دوسری طرف سے آنے والی تیز رفتار نیوخان کی بس نے اسے ایسے کچلا کہ اس کا جسم سڑک کے ساتھ چمٹ گیا جو کہ پہچاننے میں ہی نہ آرہا تھا۔ ٹرک والا تو رکا ہی نہیں بس والے نے بس کھڑی کردی۔ پولیس آگئی‘ پولیس نے بس والے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں اپنی طرف سے ٹھیک آرہا تھا اس کو نامعلوم ٹرک والے نے ٹکرماری اور یہ اچھل کر میری بس کے نیچے آگیا۔ وہاں موجود افراد نے بھی بس والے کی تائید کی تو پولیس نے بس والے کو کاغذی کارروائی کے بعد جانے دیا۔ اب بوڑھے نے پولیس کو سارا واقعہ سنایا۔ پولیس نے بوڑھے کو سائیکل سمیت گاڑی میں بٹھایا اور جہاں سے بوڑھے نے سائیکل خریدی تھی وہاں لے کر گئے‘ دکان کے مالک نے بتایا کہ چند گھنٹے پہلے یہ بزرگ یہاں سے سائیکل خرید کر لے گئے تھے تو پولیس نے وہ سائیکل بزرگ کے حوالے کردی۔ قارئین! آج ہم قران پاک پر عمل کرنے کی بجائے بات بات پر قرآن کی قسم اٹھانے کی بات کرتے ہیں حالانکہ قرآن پاک قسم اٹھانے کیلئے ہرگز ہرگز ہرگز نہیں ہے بلکہ پڑھنے اور عمل کرنے کیلئے ہے۔ لہٰذا ہمیں قسم اٹھانے اور خاص طور پر قرآن پاک کی قسم اٹھانے کی سخت احتیاط کرنی چاہیے۔(محمد بلال سلطان‘ ملتان)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں