Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

بائیں ہاتھ والوں کی پریشانی ہمیشہ کیلئے ختم

ماہنامہ عبقری - دسمبر 2016ء

اگرچہ طبی طور پر تو بائیں ہاتھ سے کام کرنے کی توضیح تو موجود ہے تاہم ایک سماجی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں سے حقارت آمیز امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور اس فعل کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔

بائیں ہاتھ سے کام کرنے کی عادت بچے کی جبلت میں اس وقت بھی موجود ہوتی ہے جب وہ شعور کی منزل سے برسوں دور ہوتا ہے۔ اگرچہ دائیں ہاتھ والے معاشرے میں بائیں ہاتھ سے کام کرنے والا ایک اچھنبے کی صورت اختیار کرجاتا ہے لہٰذا وہ والدین جن کے بچوں میں بائیں ہاتھ کے استعمال کی عادت کے اشارے ملنے لگتےہیں وہ اس سلسلے میں طویل عرصہ تک فکرمند رہتے ہیں۔ ان کے پیش نظر یہ تشویش ہوتی ہے کہ آیا کہ یہ بچہ دائیں ہاتھ کے ذریعے کام سرانجام دینے والی دنیا میں نارمل طور طریقوں سے زندگی بسر کرسکے گا یا نہیں؟ وہ بچے کی اس ’’خرابی‘‘ کو دور کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں تاہم ماہرین اس طریقے کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ طبی اور دماغی معاملات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچہ یا کوئی بڑا شخص بائیں ہاتھ سے بھی اچھی طرح کام کررہا ہے تو اس کی حالت بدلنے کے لیے مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر کی کل آبادی کے تقریباً پندرہ سے بیس فیصد افراد ایسے ہیں جو بائیں ہاتھ سے کام کرتے ہیں۔ دنیا میں بہت سی نامور ترین ایسی شخصیات گزری ہیں جو بائیں ہاتھ سے کام کرتی تھیں۔ ایسے لوگوں میں شہنشاہ سکندر اعظم‘سابق امریکی صدر بل کلنٹن‘ جارج بش سینئر‘ ملکہ وکٹوریہ‘ سائنسدان بنجمن فرینکلن‘کیوبا کے صدر فیدل کاسترہ‘ دنیا بھر اور پاکستان کے مشہور کرکٹر وسیم اکرم‘ سعید انور کا شمار بائیں ہاتھ والوں میں کیا جاتا ہے۔
بلاشبہ ہم دائیں ہاتھ سے کام کرنے والے معاشرے میں رہتے ہیں یعنی ہم جو چیزیں استعمال کرتے ہیں وہ عموماً دائیں ہاتھ کے لوگوں کیلئے ہوتی ہیں۔ ہمارے دروازوں کے ہینڈل، تالے، پیچ کس، کاریں حتیٰ کہ ہمارے لباس کے بٹن بھی دائیں ہاتھ سے کام کرنے والے لوگوں کیلئے بنے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر میز کی درازوں سے لے کر کمپیوٹر ماؤس تک تمام کی تمام چیزیں دائیں ہاتھ سے کام کرنے والے لوگوں کیلئے ہی بنائی جاتی ہیں اور پھر جب میدان عمل میں بائیں ہاتھ والوں کو ان چیزوں کو استعمال کرنا پڑتا ہے تو پھر ظاہر ہے کہ انہیں ’’پریشانی‘‘ تو ضرور ہوتی ہے۔
بائیں ہاتھ والوں کو لاحق پریشانیوں کے باوجود مغرب میں ایک نئی تھیوری حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے جو طویل تحقیق اور جائزوں کے بعد مرتب کی گئی ہے۔ یہ تحقیق بائیں ہاتھ والوں کیلئے یقیناً حوصلہ افزا ہوگی۔ تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ’’دائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کی نسبت بائیں ہاتھ والے زیادہ اسمارٹ دلکش، ذہین، معاملہ فہم اور اپنے اندر قائدانہ صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ اب یہ نظریہ حقیقت پر مبنی ہے یا دیومالائی قصوں کی طرح کا کوئی قصہ۔ یہ بات تو آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے؟ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگ دائیں ہاتھ کے بجائے بائیں ہاتھ سے اپنے روزمرہ کے تمام معمولات کیوں کہ سرانجام دیتےہیں۔ اس کے اسباب کیا ہیں آیا کہ یہ فعل انسانی جسم کے کسی جین کے باعث رونما ہوتا ہے یا انسانی جسم کے کچھ اور عوامل اس کے محرک ہیں؟ ان سوالات کے بارے میں ابھی تک طبی اور دماغی ماہرین اور سائنسدانوں نے متفقہ طور پر کوئی جواب پیش نہیں کیا ہے۔ ماہرین دماغ کے ایک طبقے کا کہنا ہے کہ اس کا سبب انسانی جسم کا کوئی جین ہے جس کی وجہ سے فرد کے بچپن میں ہی اس میں یہ تبدیلی ظہور پذیر ہوجاتی ہے۔ یعنی کہ اس جین کے زیراثر وہ دائیں یا بائیں ہاتھ کےاستعمال کی عادت پکڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسانی دماغ کا دایاں حصہ بائیں اور بایاں حصہ دائیں طرف والے جسم کوکنٹرول کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر دائیں ہاتھ والے کہتے ہیں کہ وہ دماغ کے دائیں حصے کے زیراثر ہوتے ہیں اور چونکہ ہمارے معاشرے میں ’’دائیں‘‘ کو صحیح سمت سمجھا جاتا ہے لہٰذا ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اور ان کےمعاملات درست ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات تو ایک مذاق معلوم ہوتی ہے۔
اگرچہ طبی طور پر تو بائیں ہاتھ سے کام کرنے کی توضیح تو موجود ہے تاہم ایک سماجی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے مختلف معاشروں اور تہذیبوں میں بائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں سے  حقارت آمیز امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور اس فعل کو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً لاطینی زبان میں دائیں ہاتھ سے کام کرنے والوں کو Sinisterکہا جاتا ہے جس کے معنی شیطان، نامبارک، منحوس، دغاباز وغیرہ ہیں۔ فرانس میں انہیں بیہودہ‘ ناواقف‘ اناڑی‘ بھدا وغیرہ بھی کہا جاتا ہے۔
خود ہمارے معاشرے میں بائیں ہاتھ کے استعمال کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے کسی گھر میں اگر ایسا بچہ پیدا ہوجائے تو بڑے بوڑھے فطرت کی کارگزاری کو سمجھنے کے بجائے اسے بچے کے خوداختیاری فعل پر محمول کرتے ہیں اور اسے درست کرنے کیلئے بچوں کو سزاؤں کا سامنا کرنا بھی پڑجاتا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ بچہ اپنی ذہنی بناوٹ کو جسمانی سزاؤں سے خوفزدہ ہوکر تو بدلنےسے رہا۔
عمان سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ’’اگرچہ دائیں ہاتھ والوں کو بائیں ہاتھ والوں پر فوقیت دی جاتی ہے تاہم دیکھا جائے تو دونوں میں بعض چیزیں مشترکہ ہیں۔یعنی کہ حاضر جوابی‘ جذباتی پن‘ اپنا نکتہ نظر رکھنا‘ سنجیدگی‘ معاملہ فہمی‘ شخصی آزادی‘ تخلیقی سوچ اور دنیامیں آنے کا ایک جیسا طریقہ۔ لہٰذا جب یہ چیزیں دائیں اور بائیں ہاتھ والے دونوں میں مشترکہ ہیں تو پھر کسی ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا درست نہیں۔ اسی طرح ہم از خود اپنے گرد تناؤ کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ دائیں ہاتھ کا استعمال اگرچہ دماغ کے کسی جین کےباعث وقوع پذیر ہوتاہے‘ لہٰذا اسے کسی سماجی، معاشرتی اور گھریلو معاملے میں خوش بخت یا نحوست قرار دینا دراصل خلق انسانی کے کام میں کیڑے نکالنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں قدرت کے کاموں کے آگے سر جھکانا چاہیے ناکہ ان میں نقائص تلاش کرنے چاہئیں‘‘ ان کے مطابق بائیں ہاتھ والوں کی طرح دائیں ہاتھ والے بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں‘ لہٰذا روز مرہ استعمال کی چیزیں مثلاً فاؤنٹین پین، کمپیوٹر ماؤس، پتلون کا بیلٹ‘ دفتری کاموں میں استعمال ہونے والی میزیں اور اسی طرح کی دیگر اشیاء تیار کرنے والی کمپنیاں بھی اپنی مصنوعات میں تھوڑی تعداد میں ہی سہی‘ ایسی چیزیں ضرور تیار کریں جو بائیں ہاتھ والوں کی جسمانی خصوصیات کو پیش نظر رکھ کر تیار کی گئی ہوں۔ اسی طرح نہ صرف ہم ان کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوں گے کہ وہ بھی بائیں ہاتھ والوں کی طرح ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں بلکہ دوسری طرف ان کے استعدادکار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوسکے گا۔

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 326 reviews.